Why Do America and the WestHave a Double StandardRegarding Human Rights?

<--

انسانی حقوق بارے امریکہ اور مغرب کا دوہرا معیار کیوں؟

پاکستان جیسے مسلم ملک میں اگر مختاراں مائی ریپ کیس منظر عام پر آجائے تو امریکہ اور یورپ کے میڈیا کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں اس معاملے کو دنیا بھر میں پوری شدت اور قوت کے ساتھ اچھالتی ہیں لیکن اسرائیلی فوجی اگر ایک معصوم فلسطینی بچے کی لاش کو بوٹوں تلے روندیں اور ایک دنیا اس منظر کو ٹی وی سکرین پر بھی دیکھ لے تو اس کے باوجود امریکہ ‘ یورپ ‘ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔انسانی حقوق کے حوالے سے یہ دوہرا معیار عالم انسانیت کو کہاں لے جائے گا ‘ امریکی اور یورپی مفکرین کو اس سوال پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

اس سوال پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری کشیدگی میں اضافہ کب اورکیوں ہوا؟ ایک دنیا جانتی ہے کہ فلسطین میں جمہوری طریقے سے انتخابات ہوئے اور فلسطینی عوام نے اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہوئے حماس کو مینڈیٹ دیا۔ لیکن جونہی ان انتخابات کا نتیجہ سامنے آیا تو امریکہ اور اسرائیل نے اس نتیجے کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ کسی نے یہ الزام نہیں لگایا کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے بلکہ مخالفت کا عذر یہ پیش کیا گیا کہ ایک شدت پسند تنظیم کو مینڈیٹ کیوں ملا۔ اس میں شک نہیں کہ حماس نظریات کے اعتبار سے الفتح کے مقابلے میں سخت گیر ہے لیکن کیا اس بنیاد پر عوامی رائے کو بلڈوز کیا جاسکتا ہے؟ بجائے اس کے کہ حماس کے ساتھ مذاکرات کرکے مسئلہ فلسطین کا حل تلاش کیا جاتا ‘ اس بات کو مسئلہ بنا دیا گیا کہ حماس کو عوام نے حکومت سازی کا حق کیوں دیا۔ فلسطینیوں کی امداد بند کر دی گئی اور حماس نے حکومت سازی کرنا چاہی تو اس کی راہ میں بھی روڑے اٹکائے گئے۔ اسماعیل حانیہ کو قتل کرنے کی دھمکیاں دی جانے لگیں اور امریکہ اور اس کے حواریوں نے مل کر فلسطینیوں کا معاشی ناطقہ بند کرکے گویا انہیں اس با ت کی سزا دی کہ انہوں نے حماس کے حق میں ووٹ کیوں دیئے؟ امریکہ اور مغرب کی زیادتی کے باوجود حماس نے اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنے انداز و اطوار میں نرمی پیدا کی اور بے پناہ تحمل و بردباری کا مظاہرہ کیا۔

حماس کا یہ رویہ ظاہر کرتا تھا کہ وہ مسئلہ فلسطین کے حل میں پوری طرح مخلص ہے اور اس کی خواہش ہے کہ عالمی طاقتیں اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرتے اور عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان مصالحت پر مبنی کردار ادا کریں۔ حماس کی اس صلح جوئی کو اس کی کمزوری پر محمول کرتے ہوئے امریکہ اور اس کے حواری اس کے گرد مسلسل شکنجہ کستے رہے اور اقتدار کے پہلے دن سے لے کر موجودہ لڑائی کے شروع ہونے تک فلسطینی صدر محمود عباس کے ذریعے حماس حکومت کو مسلسل پریشان کیے رکھا۔

امریکہ اور مغرب کے دوہرے معیاروں کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہوسکتا ہے کہ گزشتہ روز جبکہ اسرائیلی ٹینک غزہ کی آبادی پر مسلسل بمباری کر رہے تھے اسرائیل کی زمینی فوج بچوں ‘ عورتوں اور مردوں میں تخصیص کیے بغیر پانی کی طرح فلسطینیوں کا لہو بہا رہی تھی ‘ امریکہ اور مغرب کے معروف ٹی وی چینلز پوری قوت اور شدت کے ساتھ اس ظلم کو سامنے لانے کی بجائے دنیا کو یہ دکھا رہے تھے کہ بھارت نے ممبئی حملوں کے شواہد پاکستان کے حوالے کر دیئے ہیں۔ یہ شواہد کیا ہیں انہیں کھنگالنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی۔ اجمل قصاب کے اقبالی بیان سے لے کر آسٹریا او ر امریکہ کی انٹرنیٹ موبائل سموں تک سارا معاملہ ہی مشکوک تھا لیکن اس کے باوجود پاکستان کے حوالے سے یہ تاثر دیا جارہا تھا جیسے وہ ہی د نیا بھر میں ہونے والی مجرمانہ سرگرمیوں کا مرکز ہے۔

اجمل قصاب کے بیان کی کیا اہمیت ہے اس حوالے سے قانونی ماہرین کی آراء سامنے آرہی ہیں لیکن اصل بات یہ ہے کہ ٹارچر سیل میں لے جاکر کسی بھی شخص سے کوئی بھی بیان دلوایا جاسکتا ہے۔

ہمارے ہاں آئے روز دہشت گردی کی وارداتیں ہو رہی ہیں اور کئی بھارتی شہری د ہشت گردی کی اس فضا میں ہماری پولیس کی تحویل میں آئے۔ ہم بھی ان میں سے کچھ پر تھرڈ ڈگری استعمال کرکے ان سے منوا سکتے تھے کہ دہشت گردی کی وارداتیں انہوں نے اپنی حکومت یا ایجنسیوں کے اشارے پر کی ہیں لیکن ہم نے تو میریٹ ہوٹل اور کگھڑ پلازہ جیسے سانحات کو بھی بڑے حوصلے سے برداشت کیا او ر ان وارداتوں کو بھارت کے سر نہیں منڈھا۔ بھارت نے فاٹا سے لے کر بلوچستان تک پاکستان کو اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اور ہمارے پاس اس کے ثبوت بھی تھے اس کے باوجود ہم نے اپنے ملک میں بھارت کے خلاف وارلہسٹیریانہیں پیدا کیا کیونکہ ہم جیو اور جینے دو کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ بات چلی تھی انسانی حقوق کی اور کہاں نکل گئی۔ ہم عرض کر رہے تھے کہ انسانی حقوق کے حوالے سے امریکہ اور مغرب نے جو دوہرا معیار اختیار کر رکھا ہے اور امریکیوں نے جس انداز میں اسرائیل کو فلسطینیوں کے قتل کا لائسنس دیا ہوا ہے اس کے نتائج بہت بھیانک ہوسکتے ہیں۔ مسلم امہ ان دوہرے معیاروں کی وجہ سے ڈیپریشن کا شکار ہو رہی ہے اور یہ ڈیپریشن مسلم نوجوانوں کو کس سمت لے جاسکتا ہے اس بارے امریکی اور یورپی حکام کو ضرور غور کرنا چاہئے

About this publication