How Long Are We Going to Run from the Truth?

<--

ہم حقائق اور سچائیوں سے کب تک بھاگیں گے؟

شہباز شریف کے بیان پر مچنے والی کھلبلی سمجھ سے باہر ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ طالبان کی طرح ہم بھی امریکی پالیسیوں کے خلاف ہیں اور ڈرون حملے ان کے نزدیک جس قدر ناپسندیدہ ہیں’ ہمارے لئے بھی اتنے ہی ناپسندیدہ ہیں’ کسی بھی طور غلط بات نہیں کیونکہ ہر پاکستانی اسی انداز میں سوچتا ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ اب ہمارے حکمرانوں کو منافقت ترک کرکے سچائی کے راستے پر لوٹ آنا چاہیے اور کھل کر کہنا چاہیے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہماری اپنی نہیں ہے بلکہ ہمارے ایک حکمران کو دھمکی دے کر ہمیں اس جنگ میں شمولیت اختیار کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔

حقائق کتنے ہی تلخ کیوں نہ ہوں’ سچائی کتنی ہی کڑوی کیوں نہ ہو’ آخری جیت اسی کی ہوتی ہے۔ امریکہ نے صدام حسین کو مار دیا’ عراق کا تیا پانچہ کرکے رکھ دیا لیکن تمام تر قوت کے باوجود اس سچائی کو سامنے آنے سے نہ روک سکا کہ سی آئی اے نے ایک جھوٹی رپورٹ تیار کرکے عراق پر حملے کی راہ ہموار کی تھی قومی سطح پر یہ بات اب تسلیم کرلی جانی چاہیے کہ امریکہ اور ہمارے درمیان کوئی رشتہ نہیں’ یہ رشتہ جو نظر آتا ہے محض زبردستی اور دھونس کا رشتہ ہے اور ہم دوسروں کی جنگ کو کھینچ کر اپنے ہاں لانے کے قصور وار ہیں محض اس لئے امریکی پالیسیوں کی حمایت کرتے چلے جانا کہ اس سے ہمیں ڈالرز ملتے رہیں قومی خودکشی کے مترادف ہوگا۔ چند ارب ڈالروں کے لئے ملک کو جھلسا کر رکھ دینا کہاں کی حکمت اور دانائی ہے؟

یہ شہر شہر دھماکے طالبان کر رہے ہیں یا انڈین ایجنٹ’ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان کی راہ کس نے ہموار کی؟ کیا ہمارے ہی حکمرانوں نے ہندوستان کو اس قابل نہیں کیا کہ وہ جب چاہے اور جہاں چاہے دھماکے کرا دے ۔ نائن الیون سے پہلے اس میں ان دھماکوں کی صلاحیت کیوں نہ تھی؟ تب یہی انٹیلی جنس ایجنسیاں تھیں جن کو ہندوستان کی ہر شرارت کا پیشگی پتہ چل جاتا تھا اور آئی ایسآئی کے سامنے ”را” کی حیثیت طفل مکتب سے زیادہ نہ تھی۔

”را” پاکستان کے حوالے سے بالکل بے بس تھی اور آئی ایس آئی کا شمار سی آئی اے کے بعد دنیا کی بہترین انٹیلی جنس ایجنسیوں میں ہوتا تھا۔ اب آئی ایس آئی اتنی بے بس کیوں نظر آتی ہے کہ اس کی موجودگی میں دہشت گرد اتنی آسانی سے خودکش حملے کر لیتے ہیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ ایک خوفناک بین الاقوامی سازش جس میں ”را” بھی شامل ہے’ کے تحت پاکستان میں بے چینی پیدا کرنے کا منصوبہ بنایا گیا اور مقامی ایجنٹوں کے ذریعے اب عوام کو خوفزدہ کیا جارہا ہے۔ بنیادی ہدف یہ ہے کہ ہر واردات کا ملبہ طالبان پر گرا دیا جائے تاکہ ہر شہر اور قصبے سے پاکستانیوں کی لاشیں اٹھیں تو ہر آدمی کا شک طالبان کی طرف جائے اور ان کے خلاف اتنی شدید نفرت پیدا ہو جائے کہ پاکستان کے اندر سے یہ آوازیں اٹھنا شروع ہو جائیں کہ انہیں کچل دو’ مار دو’ تباہ و برباد کر دو…

اگر ہم فرض کرلیں کہ ہندوستان سمیت بعض بین الاقوامی قوتیں طالبان کے ذریعے شہروں میں خودکش دھماکے کرا رہی ہیں اور ان معاملات سے طالبان کا گہرا تعلق ہے تب بھی یہ سوال تو اپنی جگہ برقرار رہے گا کہ طالبان کو اس قدر پست مقام پر پہنچایا کس نے؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ نائن الیون سے پہلے دنیا صرف افغان طالبان سے ہی واقف تھی اور پاکستان میں طالبانائزیشن کا کوئی وجود نہ تھا۔ کیا اس حقیقت سے انکار کیا جاسکتا ہے کہ اگر ہم امریکہ کے دبائو میں آکر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شمولیت اختیار نہ کرتے تو طالبان حکومت کے خاتمے کے باوجود افغانستان اور پاکستان قبائلی کے پشتونوں سے ہمارا محبت کا رشتہ برقرار رہتا اور جب مصیبت کا ہم آج سامنا کر رہے ہیں’ اس کا وجود ہی نہ ہوتا۔ اگر ہم امریکہ کو انکار کر دیتے تو زیادہ سے زیادہ کیا ہوتا؟ امریکہ اور یورپ کی طرف سے ہم پر معاشی پابندیاں عائد کر دی جاتیں اور ہم چند سال اس عیاشی سے محروم رہ جاتے جو ڈالروں کی وجہ سے مشرف دور میں ہم نے کی۔ درحقیقت پابندیوں کے عرصے میں ہم سر اٹھا کر جینا سیکھ لیتے۔ ایک قوم بن جاتے اور بھارت سمیت دنیا کے کسی ملک کو ہمارے ہاں نقب لگانے کی ہمت نہ ہوتی۔ قوم چٹنی کے ساتھ روٹی کھا رہی ہوتی لیکن یہ سوچ کر خدا کا شکر ادا کرتی کہ ہم نے کسی کے آلہ کار بن کر اپنے ہی دینی بھائیوں کے خون سے ہاتھ نہیں رنگے۔

آج ہم کہاں کھڑے ہیں؟ اس سوال پر یہ خوب غور کیجئے! ہم سات سال تک امریکہ کی جنگ لڑ کر بھی مجبوروں اور مقہوروں کی صف میں کھڑے ہیں۔ کہاں گئی وہ کیری لوگر بل والی رقم؟ کہاں گئے وہ نام نہاد فرینڈز آف پاکستان؟ کہنے کو ہم امریکہ کے نان نیٹو اتحادی’ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن سٹیٹ۔ امریکہ کا صدر تقریر کرے تو درجنوں بار ہمارے ملک کا نام لیتا ہے۔ دنیا ہمیں ایٹمی طاقت کے طور پر جانتی ہے۔ لیکن ہماری اصلیت یہ ہے کہ ہم زرعی ملک ہونے کے باوجود اپنی گندم کی ضروریات کو پورا نہیں کر سکتے۔ ہمارا کسان گھٹنوں میں سر دئیے بیٹھا ہے کیونکہ جن نرخوں پر ہم اسے بجلی فراہم کر رہے ہیں’ جن نرخوں پر بیج اور کھاد دے رہے ہیں’ وہ اتنے زیادہ ہیں کہ کاشتکار کے لئے کچھ پیدا نہ کرنا ہی بہتر ہے۔

ہماری انڈسٹری بند پڑی ہے۔ یہاں بھی بجلی’گیس’ تیل اور خام مال کی خوفناک قیمتیں سرمایہ کار کی راہ میں حائل ہیں۔ لاکھوں مزدور بے روزگار ہوچکے ہیں۔ لاکھوں چولہے ٹھنڈے پڑے ہیں لیکن ہمارے حکمرانوں کو ہوش ہی نہیں کہ اس ملک کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ انہیں ایک ہی فکر کھائے جارہی ہے کہ کہیں امریکہ ہم سے ناراض نہ ہو جائے’ ایک امریکہ کو راضی رکھنے کے لئے ہم نے لاکھوں نئے دشمن پیدا کرلئے ہیں۔ ان دشمنوں نے ہمارے ہزاروں بھائی’ بہنیں اور بچے مار دئیے’ ہماری سڑکیں خون سے رنگین ہوچکی ہیں۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ خودکش حملے میں مرنے والوں کے اعضاء کئی کئی فٹ اوپر اچھلے’ ہر طرف آہیں ہیں’ بین ہیں’ نوحے ہیں اور بددعائیں۔

حکمران محفوظ ہیں اور عوام غیر محفوظ’ انہیں اس بات سے کچھ لینا دینا نہیں کہ یہ خودکش حملے طالبان کر رہے ہیں’ انڈین ایجنٹس یا کوئی اور’ انہیں تو بس اپنا تحفظ چاہیے اور یہ تبھی ممکن ہے جب امریکہ کو گڈبائے کہہ کر ہم چاروں طرف نگاہ دوڑائیں کہ پچھلے سات آٹھ برسوں میں ہم نے کیا کچھ کھو دیا ہے؟

امریکہ کو اب صاف لفظوں میں بتا دیا جانا چاہیے کہ اب ہم میں مزید صدمے برداشت کرنے کی سکت نہیں ہے۔ وہ جانے اور طالبان یا القاعدہ جانے۔ ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ قوم اور حکمرانوں کی زبان ایک ہو۔ بصورت دیگر حکمرانوں پر یہ اخلاقی فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ بھی عوام کی طرح دہشت گردی کا سامنا کریں۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ وہ اپنے لئے تو دنیا کی سب سے بڑی سیکورٹی رکھیں اور عوام کو دہشت گردوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیں۔

شہباز شریف کی گفتگو کا عکس ان کی پالیسیوں میں بھی نظر آنا چاہیے ورنہ عوام یہی سمجھیں گے کہ وہ ڈبل گیم کر رہے ہیں۔ امریکہ کو بھی راضی رکھتے ہیں اور اب امریکہ مخالفوں کو بھی ”صلح” کا پیغام دے رہے ہیں۔ عوام لاشیں اٹھا اٹھا کر تھک گئے ہیں اس لئے انہیں کسی انتہائی اقدام پر مجبور نہ کیا جائے۔

About this publication