In the War on Terrorism, America Is Not Our Ally

<--

دہشت گردی کا عفریت …..امریکی جنگ سے کنارہ کشی اختیار کرنی ہوگی

مینگورہ کی ضلع کچہری چوک میں خودکش حملے میں 17افراد جاں بحق اور60افراد زخمی ہوئے۔ مینگورہ کے علاقے سیدوشریف روڈ پر سرکٹ ہائوس چیک پوسٹ کے قریب ضلع کچہری سرکاری دفاتر اور کیمپ کے اندر سیکورٹی فورسرز کا ہیڈ کوارٹر بھی ہیمیں ایک خودکش حملہ آور رکشے سے اترا اور اندر جانے کے لئے تلاشی سے قبل ہی اپنے آپ کو دھماکے سے اڑا دیا جس کے نتیجے میں 17افراد جاں بحق اور 60افراد زخمی ہوئے۔

لاہور میں ایک ہی دن میں 9دھماکوں کی ہولناکیوں اور لوگوں کی چیخ و پکار کم بھی نہیں ہوئی تھی کہ دہشت گردوں اور ملک دشمنوں نے مینگورہ کو اپنی وحشت و بربریت کا نشانہ بنا کر واضح طور پر یہ پیغام دیا ہے کہ وہ یہ کارروائیاں کرتے رہیں گے ‘جبکہ دوسری طرف حکومتی ذمہ داران کے وہی رٹے رٹائے بیانات سامنے آرہے ہیں کہ ہمارے حوصلے پست نہیں ہوں گے۔ دہشت گرد ناکام ہوں گے اور ہم ان واقعات کی مذمت کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ دہشت گردی کب تھمے گی اور حکمرانوں کے بیانات اور خالی خولی دعوے کب عملی شکل اختیار کریں گے؟ عوام اس اندھی جنگ میں اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھا اٹھا کر تھک چکے ہیں’ اب اگر حکمرانوں اور ملک کے سیاستدانوں کو عوام سے محبت اور ملک کو دشمنوں کی سازشوں سے بچانے کی فکر ہے تو اس اندھی امریکی جنگ سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا۔

پاکستان پچھلے آٹھ برسوں سے مسلسل امریکہ کی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایندھن بن چکا ہے’ امریکہ کی جنگ لڑتے لڑتے خود ہی دہشت گردی کی لپیٹ میں کچھ اس طرح آچکا ہے کہ کئی صدیوں تک اس کے زخم تازہ رہیں گے۔ یہ حقیقت ہے کہ جس جس قدر نقصان مالی اور جانی اعتبار سے پاکستان کا اس جنگ میں ہوا ہے اتنا نقصان نہ تو امریکہ کا ہوا ہے اور نہ ہی دوسرے اتحادی ممالک کا’ بقول وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے گزشتہ سال کے وسط تک پاکستان کا اس جنگ میں 35ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے…بدلے میں امریکہ نے امداد کے صرف وعدے ہی کئے ہیں۔ ماضی میں اگر امریکہ نے کچھ امداد دی ہے تو وہ آمرانہ دور حکومت میں دی کچھ لوگوں کے ذاتی اکائونٹس میں منتقل ہوچکی ہے اب تو عوام میں یہ بات عام ہوچکی ہے کہ مشرف دور کی طرح آج بھی حکمران صرف امریکی ڈالروں کے حصول اور اقتدار کے لئے اس جنگ کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ ہمارے حکمران اس بات پہ غور کیوں نہیں کرتے کہ اس جنگ سے نہ صرف ہمارا جانی اور مالی نقصان ہوا ہے بلکہ اس جنگ کی آڑ میں پاکستان کو صرف اس جنگ میں مصروف دیکھ کر بھارت نے نہ صرف کشمیر میں اپنی جارحیت میں اضافہ کیا بلکہ ایک طرف آبی جارحیت کے ذریعے پاکستان کو بنجر بنانے کے منصوبے ترتیب دیتے تو دوسری طرف پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے لئے بلوچستان سے لے کر وانا وزیرستان تک سازشوں کا جال بچھا کر اپنے ایجنٹوں کے ذریعے دہشت گردی کی کارروائیوں میں مصروف ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان کی اس قدر قربانیوں کو دیکھتے ہوئے امریکہ اور عالمی برادری نہ صرف پاکستان کی معاشی امداد کرتی بلکہ مسئلہ کشمیر سمیت تمام مسائل کو حل کراتی لیکن ستم بالائے ستم کہ امریکہ نے قربانیاں پاکستان سے مانگیں اور نوازنے کی باری آئی تو بھارت کو خوب نوازا۔ نہ صرف امریکہ نے بھارت کے ساتھ سول ایٹمی معاہدے کئے بلکہ افغانستان کی سرزمین کا استعمال کرتے ہوئے بھارت کو پاکستان کے خلاف کارروائیاں کرنے کا بھی خوب موقع دیا گیا’ افغانستان میں بھارت امریکہ کی ناک کے نیچے بیٹھ کر پاکستان کے خلاف کارروائیاں کر رہا ہے اور امریکہ اس پہ نہ صرف خاموش ہے بلکہ اگر پاکستان احتجاج کرے تو بھارت کی وکالت کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ دوسری طرف امریکہ چین اور پاکستان کے مقابلے کے لئے بھارت کو خطے کا تھانیدار بنانے کے لئے ہر حربہ استعمال کر رہا ہے۔ امریکہ دوستی کی آڑ میں دشمنی والے کردار کو آگے بڑھاتے ہوئے بھارت اور صہیونی طاقتوں کی خواہش کے مطابق پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پہ بھی قابض ہونے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ امریکہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے طرز پر پاکستان کے شہروں میں سفارت خانوں کی توسیع کے نام پر جس طرح جائیدادیں خرید رہا ہے اس سے بھی اس کے مستقبل کے حوالے سے عزائم کھل کر سامنے آرہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ امریکہ کے ان تمام اقدامات میں ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں کو دوستی کہاں نظر آرہی ہے؟ امریکہ تو دوستی کی آڑ میں مکمل دشمنی کر رہاہے مگر اس کے باوجود بھی ہم امریکہ کی پیدا کردہ دہشتگردی کی جنگ کا حصہ بن کر اپنی تباہی کا ساماں کیوں پیدا کر رہے ہیں؟ اب تو ہمارے پاس گنوانے کے لئے بھی کچھ نہیں رہا’ معیشت ہماری تباہی کے دھانے پر ہے۔ زراعت کو ختم کرنے کے لئے بھارت پہلے ہی منصوبوں پر عمل پیرا ہے’ روز کسی نہ کسی شہر میں لوگ اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھاتے ہیں کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ ہم امریکہ کی اس اندھی جنگ سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے اپنے مستقبل کو محفوظ بنائیں؟

پلوں کے نیچے سے اس حد تک پانی گزر چکا ہے کہ اب محض مذمتی بیانات اور بلند بانگ دعوئوں سے دہشت گردی اور دشمنوں کی سازشوں کا یہ سلسلہ رک نہیں سکتا۔ اب حکمرانوں اور سیاست دانوں کو ایک اہم فیصلہ کرنا ہوگا اور وہ فیصلہ ہے امریکہ کی اس نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ جو درحقیقت امریکی مفادات کی جنگ ہے سے کنارہ کشی کا اعلان’ وقتی طور پر اس اقدام سے ہمیں مشکلات کا سامنا کرنا ہوگا لیکن اگر حکمران ایسا فیصلہ کرتے ہیں تو ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ عوام ہر قسم کی مشکلات کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں۔

امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کی حقیقت اب تو پوری دنیا پر واضح ہوچکی ہے اور اکثر ممالک اس جنگ سے لاتعلقی کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ چین اور روس سے تعلقات مضبوط کئے جائیں چین و روس بھی امریکہ کی اس دخل اندازی اور پوری دنیا کے امن کو تہہ و بالا کرنے کی سازشوں کا حصہ بننے کے لئے ہرگز تیار نہیں۔ دیکھا جائے تو چین اور روس تو ہمارے ہمسائے ہیں امریکہ سات سمندر پار سے آکر خطے میں بدامنی پھیلا رہا ہے’ اگر خطے کے ممالک اتحاد کا مظاہرہ کریں تو نہ صرف امریکہ کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے بلکہ ہمارا خطہ امن و خوشحالی کا گہوارہ بن جائے گا۔

About this publication