اسامہ پاکستان میں ہی
متفرق
ہیلری کہتی ہے کہ اسامہ پاکستان میں ہیں اور مائیک مولن بھی یہی کہتے ہیں کہ پاکستان کے حکمرانوں کو بھی اس بات کا علم ہے کہ اسامہ پاکستان میں ہیں اور مجھے ان دونوں کی بات سے بھرپور اتفاق ہے۔ صرف ہمارے حکمران ہی اس حقیقت سے واقف نہیں بلکہ اس ملک کی عوام بھی یہ بات بخوبی جانتے ہیں۔ اسامہ کسی ایک شخص کا نام نہیں‘ اسامہ ایک جذبہ کا نام ہے۔ اس حوالے سے پہلے بھی کتنی بار بات ہوچکی ہے۔ اسامہ بن لادن کے بارے میں تو میں اور میری جیسی سوچ رکھنے والے لُوگ آج بھی مخمصے کا شکار ہیں کہ کہیں اسامہ بن لادن کسی ایک پھندے کا نام تو نہیں جو امریکا نے محض مسلمانوں کو شکار کرنے کے لیے یونہی بنا رکھا ہو۔ اسامہ بن لادن کہیں کسی دام کا نام ہو‘ دام ہمرنگ زمین کا نام جسے ہم دیکھ نہ سکتے ہوں۔ اسامہ اگر محض ایک نام ہے تو میں اس کے بارے میں کبھی بھی اپنی سوچ سے ابہام دور نہ کرسکوں گی لیکن اگراسامہ ایک جذبے کا نام ہے وہ جذبہ جو امریکا کے مسلمانوںکے خلاف جرائم کے نتیجے میں دلوں میں اُبھرتا ہے۔ اگر اسامہ اس نفرت کا نام ہے جو امریکا کے مسلمانوں پر ظلم ڈھانے کے باعث مسلمانوں میں جنم لیتی ہے اگر اسامہ اس جذبہ حریت کا نام ہے جو ہر بار دبائے جانے پر کچلے جانے کے بعد مسلمانوں کی روح میں پیدا ہوتا ہے تو پھر اسامہ تو اس ملک کے گلی کوچوں میں ‘ گھروں ‘ چوراہوں میں‘ دکانوں اور درباروں میں کسی نہ کسی شکل میں ‘ کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے اور اس سے ہیلری کلنٹن ہو یا مائیک مولن ‘ اوباما ہو یا بش ہر کسی کو خوف بھی محسوس ہوتا ہے اور وہ اس پر اپنی تمام تر فوج اور تمام تر وسائل سمیت کبھی قابو بھی نہیں پاسکتے۔ہیلری کے حالیہ دورے اور مائیک مولن کے اس بیان کے بعد تجزیہ نگار یہ خوف محسوس کرنے لگے ہیں کہ شاید امریکا افغانستان اور عراق پر حملہ کرنے کے بعد پاکستان پر حملے کے بہانے تلاش کررہا ہے اور ہوسکتا ہے کہ یہ اندیشے درست بھی ہوں لیکن ایک سوال ہے جو مسلسل ذہن کے دریچوں پر دستک دیتا رہتا ہے‘ پاکستان کو پورے طور پر تباہ کردینے کے باوجود پاکستان کی معیشت کو ہر لمحہ ایک نئے عذاب کا شکار کرنے کے بعد بھی آخر پاکستان میں ایسی کون سی جوت باقی ہے جس سے امریکا اس حد تک خوفزدہ ہے کہ پاکستان پر حملے کے بہانے چاہتا ہے۔ حالانکہ پاکستان کو مقدور بھر تو امریکا تباہ کر بھی چکا ہے۔ کبھی امداد کے بہانے اور کبھی دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نام ؓلے کر پاکستان کو ایسے مسائل میں الجھا یا گیا جس کا کوئی اپائے اب دکھائی ہی نہیں دیتا۔ موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے تو کئی بار دل نہایت وثوق سے اس بات کا اعتبار کرنے لگتا ہے کہ بے نظیر بھٹو کے قتل میں امریکا کا ہاتھ تھا اور اس کا مقصد ہی یہ تھا کہ ایسے حکمرانوں کو اقتدار میں لایا جاسکے جو بظاہر جمہوری دکھائی دے لیکن دراصل وہ صرف امریکی ایجنڈے کو نبھانے کے وعدے سے حکومت میں آیا ہو۔ ان لوگوں کی کوئی مجبوری بھی نہ ہو‘عوام کی پسند ناپسند کا کوئی دباﺅ نہ ہو بلکہ یہ لوگ صرف امریکی مفادات کے دباﺅ کو محسوس کرتے ہوں چنانچہ اس وقت تو ملک میں بس یہی کچھ ہورہا ہے دہشت گردی کے خلاف جو جنگ حکومت لڑ رہی ہے وہ تو کبھی ہماری تھی ہی نہیں لیکن ہم اسے دل و جان سے لگائے بیٹھے ہیں اور ہر حکومتی اقدام بھی ایسا ہی ہوتا ہے کہ اس میں اس ملک و قوم کا کوئی فائدہ دکھائی نہیں دیتا۔ یہاں تک کہ پاکستان نے نیاٹرانزت ٹریڈ معاہدہ کیا اور اس میں بھارت کو وہ راہداری تک دے دی جو سراسر پاکستان کو نقصان ہی دے گی‘ مالی لحاظ سے پاکستان کو جتنا نقصان ہوگا وہ تو ایک طرف لیکن پاکستان کے تحفظ کو اس معاہدے سے کتنے خطرات لاحق ہوں گے اس کا تو اندازہ کرنا ہی مشکل ہے لیکن امریکا کی اس دشمنی کے ساتھ ساتھ تو ہم خود بھی اپنے ملک کے دشمن ہیں کیونکہ اس ملک میں کچھ بھی ہوتا ہو اس ملک کے حکمران اس ملک سے کیسی بھی دشمنی نبھاجائیں‘ ہم اپنے ہی مسائل مین الجھے رہتے ہیں اور کسی طور ان کا راستہ روکنے کا کوئی اپائے نہیں کرتے۔ اکثر اس حوالے بحث بھی رہتی ہے ۔ کئی دانشور ساتھی اس سب کا قصور وار امریکا کو ٹھہراتے ہیں‘ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس سب کے ذمہ دار عوام ہیں‘ جنہوں نے نہ صرف ایسے امریکی پٹھو حکمران منتخب کیے بلکہ ان کا کبھی راستہ روکنے کی کوشش بھی نہ کی لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ قوموں کی زندگیوں کی راہیں کبھی کوئی ایک عنصر مرتب نہیں کرتا بلکہ ہمیشہ بے شمار عناصر مل کر تاریخ مرتب کررہے ہوتے ہیں اور پاکستان میں بھی یہی ہورہا ہے۔ قصور صرف امریکا کا نہیں بلکہ عوام کا بھی ہے لیکن اس سب کے باوجود آج ہم جن سوالوں میں الجھے ہوئے ہیں ان کاجواب تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ مل کر ہی نہیں دیتے۔امریکا کا خوف بھی اپنی جگہ برقرار رہے کیونکہ وہ ہر کلمہ گو کے اندر موجود اسامہ سے خوفزدہ ہے لیکن اس خوف کا ہم کوئی فائدہ نہیں اٹھاتے۔ وہ تو اپنے خوف کا بار بار اظہار کرتے ہیں لیکن ہم ان کے اس خوف سے لاپروا ہیں۔ جب کوئی فیصل شہزاد امریکا میں اسامہ بن جاتا ہے ہم میں سے چند ایک خوش بھی ہوجاتے ہیں۔ چند تاسف سے سرہلاتے ہیں کہ اچھی خاصی دنیا‘ دین کی خاطر برباد کرلی اور اکثر اس بارے میں سوچتے تک نہیں۔ آج مائیک مولن کو لشکر طیبہ سے خطرہ محسوس ہوتا ہے کل وہ کہیں گے ساری مذہبی جماعتیں خطرناک ہیں اور اس کے بعد وہ ہر پاکستانی کو اسامہ سمجھیں گے لیکن اس میں ہماری حریت سے زیادہ ان کے خوف کا شاخسانہ ہوگا افسوس کی بات بھی تو یہی ہے ہم ان کے دلوں میں موجود اپنے خوف کو اپنے لیے استعمال کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے اور وہ ہیں کہ اپنے خوف ہی کے باعث ہماری گردنوں پر سوار ہیں جانے ہمیں ہوش کب آئے گا اور ہم کب اس جنگ کے لیے تیار ہوں گے جس کے خوف سے ہی وہ مرے جاتے ہیں۔
Leave a Reply
You must be logged in to post a comment.