دوسرا رُخ ۔۔۔!
طیبہ ضیاء ـ 2 دن 20 گھنٹے پہلے شائع کی گئی امریکہ کے نامور صحافی اور کالم نگار CHRISTOPHER HITCHENS کا مضمون پڑھنے کے بعد یہی محسوس ہوتا ہے کہ ”سادہ لوح امریکہ“ نے اپنی”نادانیوں اور شرمندگیوں“ سے کچھ نہیں سیکھا۔ انگریزی کے ایک جریدے میں From Abbottabad to Worse کے عنوان سے ایک مضمون شائع ہوا جس میں کرسٹوفر نے امریکہ کا سوال ”پاکستانی ہم سے نفرت کیوں کرتے ہیں؟ کا بڑا سیدھا جواب دیتے ہوئے لکھا ہے کہ They hate us because they owe us, and are dependent upon us. ”وہ ہم سے نفرت کرتے ہیںکیونکہ انہوں نے ہمارا قرض دینا ہے اور وہ ہم پر انحصار کرتے ہیں“ ۔۔۔ جب امریکہ کا ایک دانشور اور تجزیہ نگار پاکستانیوں میں امریکہ سے نفرت کی بنیادی وجہ یہ بتا رہا ہے تو ایک عام شہری کی سوچ کا معیار کیا ہو گا؟ یہ لوگ عوام کی سوچ بناتے ہیں اور ان کے جذبوں کو مفہوم پہناتے ہیں۔ امریکی عوام کو بتایا جا رہا ہے کہ تم سے پاکستانی اس لئے نفرت کرتے ہیں کہ وہ ہمارے مرہونِ منت ہیں، ہمارے مقروض ہیں لیکن ہمارے احسان مند ہونے کی بجائے ہم سے حسد اور نفرت کرتے ہیں۔ کالم نگار ایک اور دلچسپ بات لکھتا ہے کہ The two main symbols of Pakistan’s pride — its army and its nuclear program — are wholly parasitic on American indulgence and patronage.”
”پاکستان کے پاس دو چیزیں باعث افتخار ہیں، اس کی فوج اور اس کا جوہری پروگرام اور دونوں کُلی طور پر امریکہ کے محتاج ہیں“ ۔۔۔ مزید لکھتا ہے کہ پاکستان کی فوج اور ایٹمی پروگرام کی پرورش کے لئے سالانہ 3 ارب ڈالر دینے والے ملک امریکہ سے پاکستان کی نفرت ایک بزدلانہ انتقام ہے۔ لیکن یہ منافقت دوطرفہ ہے اور دونوں ملکوں کے لئے شرم کا مقام ہے۔ طالبان دراصل پاکستان کی طرف سے افغانستان کو نوآبادی بنانے کے لئے ایک ہتھیار تھے۔ طالبان کے رہنماﺅں نے کوئٹہ میں پناہ لے رکھی ہے۔ اس حقیقت سے کون واقف نہیں کہ کسی بھی مطلوب جہادی کی پاکستان میں گرفتاری کانگریس سے امداد کے اعلان کے اگلے ہی ہفتے عمل میں آئی لیکن یہ شبہ تک نہ تھا کہ اسامہ کو اسلام آباد کے نواح میں محل دیا جائے گا“ ۔۔۔ امریکی کالم نگار سخت زبان استعمال کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ”گزشتہ برسوں کے دوران میں نے متعدد ملکوں کے بارے میں لکھا ہے جنہوں نے امریکہ کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کیا لیکن پاکستان کے ہاتھوں ہمارا کھلواڑ اس کی بدترین مثال ہے۔ پاکستان ہمیں اس خطرناک ترین خطے میں دہشت گردی کے خلاف لڑنے کے لئے بلاتا رہا اور اسی عرصہ کے دوران ہماری پیٹھ پر اپنے خنجر بھی تیز کرتا رہا۔ اس توہین نے ہمیں شرم کے سمندر میں غرق کر دیا ہے اور اس کے ذمہ دار بھی ہم خود ہیں۔ امریکہ اس وقت بھی شرمندہ ہوا جب پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں سرد جنگ کے زمانے میں جنرل ایوب خان کی آمریت کے لئے ڈھال بنا، اس کے بعد اکہتر میں جنرل یحیٰی خان نے بنگلہ دیش میں قتل عام کیا تو یہ پھر شرمندہ ہوا۔ اسکے بعد ایک اور فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیاالحق کے زمانے میں ہم مزید شرمندہ ہوئے جس نے جوہری ہتھیاروں کے حصول کے لئے افغانستان میں کمیونسٹ مخالف جذبات کو استعمال کیا اور ایٹمی عدم پھیلاﺅ کے معاہدہ کا مذاق اڑایا۔ محمد علی جناح نے مسلمانوں کے لئے ایک الگ ریاست کے لئے جدوجہد کی تھی لیکن بعد میں آنے والوں نے اسے مسلمان ریاست بنا دیا۔ جنرل ضیاءکے دور میں شریعت کا نفاذ شروع ہوا جس میں اقلیتوں سمیت مسلمان گروہوں کا قتل عام ہوا اور مذہبی رحجان میں اس تیزی سے اضافہ ہوا ہے کہ ریاست آج دو حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ پاک فوج کے سربراہ اشفاق کیانی پاور فل جرنیل ہیں جنہوں نے ایبٹ آباد واقعے کے پانچ روز بعد مسکراتے ہوئے ملک میں نہ صرف امریکی فوج کی تعداد کم کرنے کا مطالبہ کیا بلکہ یہاں تک کہہ دیا کہ آئندہ ایبٹ آباد اپریشن کی صورت میںہم امریکہ کے ساتھ تعلقات پر نظرثانی پر مجبور ہوں گے ۔۔۔کرسٹوفر لکھتا ہے کہ ”امریکیوں کے لئے یہ شرم کی بات ہے کہ جو مطالبہ انہیں کرنا چاہئے تھا، پاکستان نے کرنے میں پہل کر دی۔ جب بھی پاکستان نے ہمارے ساتھ بُرے رویے کا مظاہرہ کیا ہم نے اس سے بھی زیادہ نواز دیا۔ ہم نے خود اپنے بدترین دشمن کے اتحادی اور بعض اتحادیوں کے ازلی دشمن کو اس قابل بنایا ہے (اپنے پیر پر خود کلہاڑی ماری ہے) ۔ ہم اپنے اتحاد کو تبدیل کرکے اگر بھارت کو گلے لگا لیں جو ہماری طرح کثیر قومی اور کثیر مذہبی جمہوریت ہے اور جہاں پاکستان سے زیادہ مسلمان آباد ہیں تو یہ ہمارے لئے بُرا کیسے ہو گا اور اگر ہم بہادر افغانوں جن کے سابق انٹیلی جنس چیف امراللہ صالح ہمیں بہت عرصہ تک بتاتے رہے کہ ہم ایک غلط ملک میں جنگ لڑ رہے ہیں کی بات سُن لیں تو یہ بُراکیسے ہو گا ۔۔۔! مضمون نگار آخر میں لکھتا ہے کہ ”اگر ہم اس حقیقت کو جھٹلاتے رہے تو پھر ہم اپنے نوجوانوں کی زندگیوں کو مزید خطرے سے دوچار کرتے رہیں گے ۔۔۔!
Leave a Reply
You must be logged in to post a comment.