.
Posted on September 5, 2011.
شوکت علی شاہ ـ 23 اگست ، 2011 بہت عرصہ پہلے میں لندن سے نیویارک جا رہا تھا۔ جہاز میں میرے ساتھ والی سیٹ پر ایک امریکی خاتون بیٹھی تھی جو کسی سکول میں پڑھاتی تھی۔ باتوں باتوں میں سفر کٹ گیا۔ صنفِ نازک سے گپ شپ کا ایک فائدہ تو یہ ہے کہ وقت کا احساس نہیں رہتا۔ آئن سٹائن نے اپنی گنجلک ”THEORY OF RELATIVITY“ کو عام فہم الفاظ میں کچھ اسی طرح سمجھایا تھا۔ گپ شپ بین الاقوامی امور تک محدود رہی اور کسی سفرنامہ نگار کے ”نکھار“ کی صورت نہ نکل سکی۔ جب جہاز جان ایف کینیڈی، ائرپورٹ پر لینڈ کرنے لگا تو اُس نے آخری سوال پوچھ لیا۔ بولی ”مسٹر شاہ! ہم امریکیوں کو ایک بات کی سمجھ نہیں آ رہی۔ ہم تمام دنیا کی مدد کر رہے ہیں۔ اگر کسی خطے میں قحط پڑتا ہے تو فوراً ہی ہم گندم سے بھرے جہاز بھیج دئیے ہیں۔ زلزلہ یا وبائی بیماریاں پھوٹ پڑیں تو امریکن ڈاکٹر اور نرسیں دواﺅں کی کھیپ لیکر دُکھی انسانیت کی خدمت کرنے پہنچ جاتے ہیں۔ اگر کوئی سر پھرا آمر مذہبی بنیادوں پر اقلیت کی نسل کشی کرتا ہے تو بلا امتیاز امریکہ اُس کے ہاتھ توڑ دیتا ہے۔ اگر میں یہ کہوں کہ ایک اعتبار سے امریکہ دنیا کا ”ان داتا“ ہے تو شاید غلط نہ ہو گا۔ تمام دنیا میں اِس کا سکہ چلتا ہے۔ ڈالر کا نام سننے ہی حریصوں کی رالیں ٹپکنا شروع ہو جاتی ہیں۔ باایں ہم تمام دنیا ہم سے نفرت کرتی ہے۔ اس ملک کا نام سنتے ہی ایک عجیب قسم کی بیزاری چہروں سے مترشع ہوتی ہے۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟“
”بات دراصل یہ ہے“ میں نے اُسے سمجھاتے ہوئے کہا، ”لوگ امریکی عوام سے نہیں بلکہ اُس حکومت سے نفرت کرتے ہیں جسکا سربراہ واشنگٹن کی تاریخی عمارت وائٹ ہاﺅس میں بیٹھا ہوا ہے۔ اکثریت کی سائیکی میں یہ بات راسخ ہو گئی ہے کہ استعماریت ختم نہیں ہوئی بلکہ اس نے نیا لبادہ اوڑھ لیا ہے۔ جنگ عظیم نے جہاں مغربی طاقتوں کو کالونیوں سے محروم کر دیا ہے وہاں دنیا کی واحد سپر پاور کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی ہے کہ ایشیا اور افریقہ کے پسے ہوئے ملک ایک طرح سے اسکی کالونی ہیں اور وہ دنیا کا پولیس مین ہے۔ ایک وہ وقت تھا جب امریکہ ”منرو ڈاکٹرائن“ ”SPLENDED ISOLATION“ پر عمل پیرا تھا تمام دنیا میں اسکی عزت و توقیر تھی۔ یہ درست ہے کہ جنگ عظیم نے جن کو بوتل سے باہر نکالا ہے اور شاید معروضی حالات کی وجہ سے اس کا بوتل میں واپس جانا ممکن نہ ہو لیکن جب بے پناہ طاقت ہو تو پھر IT SHOULD BE USED JUDICIOUSLY AND NOT CAPRICIOUSLY۔ بولی۔ اگر تمہارے ملک کے پاس اس قدر طاقت اور وسائل ہوتے تو تم لوگ کیا کرتے؟ ”اگر یہی کرتے تو غلط ہوتا کیونکہ ایک غلطی دوسری کا جواز نہیں بن سکتی“ بات ختم ہو گئی لیکن سوچ کے کئی در وا ہو گئے۔ مشہور فلاسفر مانٹکس نے کہا تھا POWER CORRUPTS AND ABSOLUTE POWER CORRUPTS ABSOLUTELY
اگر ہم دنیا کی تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو انسان ازل سے ہی صیدِ زبوں شہریاری رہا ہے۔ سکندر یونانی جسے آج دنیا سکندر اعظم کے نام سے جانتی ہے۔ جولیس سیزر، چنگیز خان، نپولین، ہٹلر، ہلاکو اور دیگران نے طاقت کے زعم میں بستیاں تاراج کر ڈالیں۔ بے گناہ اور معصوم لوگوں کو مولی گاجر کی طرح کاٹ ڈالا۔ کھوپڑیوں کے مینار بنائے گئے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ تاریخ بالعموم انہیں مطعون نہیں کرتی بلکہ انکی عظمت کے گیت گاتی ہے…. دراصل طاقت کی اپنی منطق ہوتی ہے، یہ اپنی راہیں خود متعین کرتی ہے اور اپنے اعمال کا جواز بھی ازخود تلاش کرتی ہے۔
Leave a Reply
You must be logged in to post a comment.