The leader of the Pakistan Muslim League (Nawaz), Nawaz Sharif, reiterated in his recent interviews with CNN and CNBC what he has been saying in his public meetings during the ongoing election campaign: The only way to tackle terrorism is through dialogue and not through the use of the gun. He has thundered that this war cannot be won by military action alone. Additionally, he said that the newly elected representatives will formulate a new policy relating to America and India. He also declared that open inquiries will take place with regard to the Kargil War and the Mumbai attacks for public accountability.
On the other side, Imran Khan, leader of the Pakistan Tehreek-e-Insaf, declared equally emphatically that he would rather die than beg America or any other country for aid. In election rallies across the Punjab, he claimed that overseas Pakistanis trusted him, had put their faith in him alone and that from them he could raise billions, freeing Pakistan from the bondage of debt and aid. He vowed that if America sent drones over Pakistan, he would order the air force to shoot them down.
In the ongoing election campaign, especially as the election date draws close, it is only to be expected that leaders of parties will attempt to highlight the issues of national importance more vociferously. To gain the support of the electorate they will be tempted to offer popular, rather than realistic, solutions to the country’s problems. Nawaz Sharif and Imran Khan are major contestants in the elections, and their pronouncements and promises are therefore important for the future of Pakistan. What they promise today in election rallies will be the yardstick by which they will be judged tomorrow. They will be asked to deliver on those promises once in power. The future government will retain credibility only if it is able to meet the expectations built up during electioneering. Surely the leaders recognize that their voters are perceptive and fully understand the issues at hand. They should therefore be responsible in their claims, even in the heat of elections. This is especially so in the case of the war on terror and future U.S.-Pakistan relations. Do not build up false hopes, as when these expectations are not met it will lead to ever greater mistrust and more recriminations. It will also encourage and reinforce the fairly widely held view that this is not Pakistan's war, but instead is one that has been imposed on Pakistan by America.
In this election campaign, to outdo and upstage one another, first the PTI and now the PML-(N) have started speaking of an easy way out of this war. Their slogans promise an early end to the war, no matter how unrealistic, ignoring the stark reality of terror bombings across the country and drone attacks in tribal areas. Sadly, the widespread violence cannot be wished away. Thousands of innocent civilians have fallen to terrorism, soldiers are being killed every day fighting terrorists and political leaders have been assassinated. The country's industry and economy stand ruined, its image in the world is extremely negative, foreign investment has dried up and even the election campaign is at the mercy of terrorists who care neither for democracy nor human values. This is, then, the reality that has to be faced; there is no running away from it. Leaders would do a disservice to themselves, the voters and the country if they were to ignore this challenge while promising a fundamental change in the country's foreign policy.
In their electioneering enthusiasm and race to get ahead, both Imran Khan and Nawaz Sharif have termed the war on terror America's war of occupation. Should they not remember the warning given by General Kayani that this is our war and has to be fought for the security and survival of Pakistan? The sentiments of the leaders about finding a solution to the ongoing conflict are praiseworthy; however, they must be subject to a realistic appraisal, which should come through rigorous analysis, with input from important state organs such as the intelligence services, the military and experts in foreign affairs.
As to the problem of drone attacks and the killing of innocent people in our tribal areas as well as in other Muslim countries such as Afghanistan, Yemen and Somalia, the matter has finally shaken the conscience of the Western world. Citizens of the U.S., U.K. and other European countries have raised their voices against this method of waging war, which kills thousands of innocents as collateral casualties. Human rights organizations are actively exposing the extent of these operations. Over 400 drone attacks, which have killed 4,700 innocent civilians, have been recorded. Most of these attacks were launched in tribal areas. A joint survey report by three reputed universities of the U.S. was made public last year. For the first time it sketched in graphic detail the barbarity of these attacks and the killings, and also questioned the usefulness of these tactics while pointing out its counterproductiveness.
Based on this report, the U.N., through its human rights wing, has warned the U.S. that America may have committed grave war crimes with its drone attacks.
In their effort to get more votes, the two leaders must not cynically play with the emotions of the people. They should resist the temptation to overpromise, for when these promises are not fulfilled, it will not be good for them, nor the country, nor indeed the democratic order that provides them with legitimacy. That democratic order requires the leaders to be truthful. We hope Nawaz Sharif and Imran Khan will consider our suggestion.
مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان کو مسلح عسکریت پسندوں کیخلاف امریکی جنگ کی حمایت پر نظرثانی کرنی چاہیے اور وہ اقتدار میں آئے تو اس پالیسی پر نظرثانی کرینگے۔ گزشتہ روز ”سی این این“ اور ”آئی بی این“ کو انٹرویو دیتے اور مختلف انتخابی جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دہشت گردی سے نمٹنے کا واحد راستہ مذاکرات ہیں۔ مسلح مداخلت نہیں۔ یہ جنگ بندوق کے ذریعے نہیں جیتی جا سکتی۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اور بھارت سمیت تمام ممالک سے متعلق خارجہ پالیسی منتخب نمائندے ہی بنائیں گے۔ انہوں نے دوبارہ اقتدار کی صورت میں کرگل کے واقعہ اور ممبئی حملوں کی انکوائری کرانے اور اسکی رپورٹ منظرعام پر لانے کا اعلان بھی کیا۔
دوسری جانب تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ وہ مر جائینگے‘ مگر وہ امریکہ یا کسی اور ملک سے بھیک نہیں مانگیں گے۔ گزشتہ روز پنجاب کے مختلف شہروں میں اپنے انتخابی جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اندرون اور بیرون ملک مقیم پاکستانی صرف ان پر اعتماد کرتے ہیں۔ وہ اقتدار میں آکر ایک سال کے اندر قوم سے اتنا پیسہ اکٹھا کرینگے کہ ملک کو کسی سے قرضے لینے یا بھیک مانگنے کی ضرورت نہیں پڑیگی۔ انہوں نے دو روز قبل انتخابی جلسوں سے خطاب کے دوران یہ اعلان بھی کیا تھاکہ انکے دور اقتدار میں امریکہ نے ڈرون طیارے بھیجے تو وہ پاک فضائیہ کو انہیں گرانے کا حکم دینگے۔
انتخابی مہم کے دوران مختلف نعروں کے ذریعے ووٹروں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانا اور انہیں اپنی جانب مائل کرنے کی کوشش کرنا‘ انتخابات میں حصہ لینے والی ہر جماعت کے قائد کا استحقاق ہے اور اس وقت جبکہ انتخابات کی منزل بہت قریب آچکی ہے۔ مختلف جماعتوں کے سیاسی قائدین عوام کے دل جیتنے کیلئے ملکی اور قومی ایشوز کے حوالے سے اپنی ممکنہ حکومتی پالیسیوں کے نکات اجاگر کر رہے ہیں۔ اس تناظر میں میاں نواز شریف اور عمران خان کے دعوﺅں اور بیانات کی اس لئے بھی زیادہ اہمیت ہے کہ انتخابی فضا ان دونوں قائدین کی جماعتوں کیلئے ہموار نظر آرہی ہے۔ چنانچہ یہ دونوں قائدین عوام سے جو وعدے کر رہے ہیں‘ انکے اقتدار میں آنے کی صورت میں عوام ان سے اپنے وعدوں کی تکمیل کے متقاضی ہونگے اور اگر وہ اپنے قول کے پکے ثابت نہیں ہونگے تو انہیں آزمانے والے عوام انہیں دھتکارنے میں بھی حق بجانب ہونگے۔ یقیناً بلند بانگ دعوے اور وعدے کرنیوالے ان سیاسی قائدین کو بھی عوام کے بیدار اور پختہ ہونیوالے شعور کی بنیاد پر صورتحال کی نزاکت کا احساس ہو گا اس لئے بادی النظر میں یہی تصور کیا جا سکتا ہے کہ ملکی مسائل اور قومی پالیسیوں کے حوالے سے ہمارے قومی سیاسی قائدین چاہے اپنی انتخابی مہم کے سلسلہ میں ہی سہی‘ انتہائی ذمہ داری کے ساتھ بیانات دے رہے ہیں۔ بالخصوص دہشت گردی کی جاری جنگ کے حوالے سے پاکستان امریکہ تعلقات سے متعلق موجودہ حکومتی پالیسی پر نظرثانی کا وعدہ ایفاءنہ ہوا تو یہ ”بیک فائر“ بھی ہو سکتا ہے اور عوام میں مزید شک و شبہات پیدا ہونگے‘ جن کی وجہ سے اب تک اکثر لوگ دہشت گردی کے خاتمے کی جنگ کو امریکہ کی جنگ سمجھتے ہیں۔
اس وقت انتخابی میدان میں موجود سیاسی جماعتوں میں تحریک انصاف کی دیکھا دیکھی اب مسلم لیگ (ن) بھی پاکستان امریکہ تعلقات اور ڈرون حملوں کے حوالے سے کھل کر بیان بازی کر رہی ہے اور انکی سوچ دہشت گردی کی جنگ سے جیسے تیسے خلاصی پلانے کا عندیہ دے رہی ہے جبکہ ہماری دھرتی پر ڈرون حملوں اور خودکش حملے اور بم دھماکے ہی ہمارے لئے سب سے بڑا مسئلہ بن چکے ہیں۔اس دہشت گردی نے ہمارے بے گناہ ہزاروں شہریوں‘ سکیورٹی اہلکاروں اور سیاسی شخصیات کے خون کے ناحق دریا ہی نہیں بہائے‘ ہماری صنعت و معیشت کو بھی برباد کیا ہے۔ بیرونی سرمایہ کاروں کو بھی یہاں سے بھگایا ہے اور عالمی برادری میں ہمارے وطن عزیز کی ساکھ بھی برباد کی ہے جبکہ ہم انتخابی عمل کے دوران بھی دہشت گردوں کے جمہوریت اور امن دشمن عزائم کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ اس صورتحال میں کسی ایسے سیاسی لیڈر کیلئے جسے اپنے اقتدار کی منزل حاصل ہوتی نظر آرہی ہو‘ کوئی ایسی قومی خارجہ پالیسی مرتب کرنا آسان نہیں جس کے نتیجے میں ہم دہشت گردی کی جنگ سے باہر نکلنے کی کوشش کرکے مزید دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ جائیں۔ اس لئے ایسے اہم اور نازک قومی ایشوز پر کوئی دل لبھانے والا بیان دینے سے پہلے ہمارے سیاسی قائدین کو متعلقہ شعبوں پر عبور رکھنے والے تھنک ٹینکس اور ماہرین کی خدمات حاصل کرکے ان سے ممکنہ خارجہ پالیسی کے بارے میں مشاورت کرنی چاہیے اور پھر سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا چاہیے۔
اگر میاں نواز شریف اور عمران خان انتخابی مہم کے جوش میں ایک دوسرے کے دیکھا دیکھی اس جنگ کو بیرونی قرار دیتے ہیں تو انہیں جنرل کیانی کے الفاظ بھی یاد رکھنے چاہئیں کہ یہ جنگ ہماری ہے اور پاکستان کی سالمیت کا سوال ہے۔ ملکی اور قومی مفادات کی روشنی میں انکے جذبات کی قدر کی جانی چاہیے لیکن اس کی ضمانت نہیں دی جا سکتی کہ اگر وہ اقتدار میں آئے تو چیف انٹیلی جنس بریفنگز کے بعد وہ خود بعدازاں اپنے اس مو¿قف پر قائم بھی رہیں گے۔
میاں نواز شریف کی یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ امریکہ‘ بھارت یا کسی بھی دوسرے ملک کے ساتھ تعلقات کے معاملہ میں قومی پالیسی صرف منتخب نمائندوں کو ہی وضع کرنی چاہیے تاہم اس حوالے سے یہ بھی طے ہونا چاہیے کہ جو قومی خارجہ پالیسی پارلیمنٹ کے فورم پر منتخب نمائندوں کے ذریعے مرتب ہو‘ عملدرآمد بھی اسی پالیسی پر ہو گا کیونکہ گزشتہ اسمبلی میں اس حوالے سے قوم کو انتہائی تلخ تجربات ہو چکے ہیں کہ نیٹو سپلائی کی بحالی کے معاملہ میں جو پالیسی پارلیمنٹ میں مرتب ہوئی‘ نیٹو سپلائی بحال کرتے وقت اسے بالائے طاق رکھ دیا گیا۔ اسی طرح ڈرون حملوں کیخلاف پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں دوبار قراردادیں منظور ہوئیں مگر ان پر عملدرآمد کی آج تک نوبت ہی نہیں آسکی۔ اگر آئندہ بھی قومی خارجہ پالیسی کے حوالے سے پارلیمنٹ کے فورم پر کئے گئے فیصلوں کا یہی حشر ہونا ہے تو پھر نواز شریف اور عمران خان جیسے قومی سیاسی قائدین کو اپنی انتخابی مہم کے دوران محض اپنی سیاسی پوائنٹ سکورنگ کیلئے بلند بانگ دعوﺅں سے گریز کرنا چاہیے ورنہ مستقبل میں ہماری ملکی اور قومی ہزیمتوں کی کوئی حد ہی نہیں رہے گی۔
جہاں تک ہماری سرزمین اور دوسرے مسلم ممالک بشمول افغانستان‘صومالیہ اور من میں جاری امریکی ڈرون حملوں کے پیدا کردہ مسائل کا معاملہ ہے‘ اس بارے میں تو آج پوری دنیا میں صدائے احتجاج بلند ہو رہی ہے۔ امریکہ‘ برطانیہ کے اپنے شہری سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں اور بے گناہ انسانوں پر ڈرون حملے بند کرنے کا تقاضا کر رہے ہیں۔ اس سلسلہ میں گزشتہ روز اقوام متحدہ کے شعبہ¿ انسانی حقوق کی جاری کردہ رپورٹ بھی چشم کشا ہے جس کے ذریعے یہ سوہانِ روح حقائق منظر عام پر لائے گئے ہیں کہ پاکستان‘ افغانستان‘ یمن اور صومالیہ میں کئے گئے 400 ڈرون حملوں میں اب تک 4700 بے گناہ شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں‘ ان میں سے زیادہ ڈرون حملے ہمارے قبائلی علاقوں میں ہوئے ہیں جن کے بارے میں تین امریکی تعلیمی اداروں کے مشترکہ طور پر کرائے گئے سروے کی رپورٹ بھی گزشتہ سال منظر عام پر آچکی ہے جس میں ڈرون حملوں کے پیدا کردہ انسانی مصائب و آلام کی روح فرسا منظر کشی کی گئی تھی۔ اس رپورٹ کی بنیاد پر ہی اقوام متحدہ کے انسانی حقوق ونگ کی جانب سے امریکہ کو باقاعدہ نوٹس جاری کرکے باور کرایا گیا کہ وہ ڈرون حملوں کی بنیاد پر بدترین جنگی جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے۔
میاں نواز شریف اور عمران خان احتیاط کریں اور کوئی ایسا وعدہ نہ کریں جو صرف عوام کو بہلانے کیلئے ہو۔ انتخابی مراحل میں ووٹ لینے کیلئے ایسے دعوے کئے گئے جو اقتدار میں آنے کے بعد پورے کرنا ممکن نہ ہوں‘ تو یہی لیڈران عوام کا بھروسہ‘ جمہوری حکومتوں سے اٹھانے کے ذمہ دار ٹھہریں گے۔ جمہوریت کے مستقبل کی ضمانت اسی میں ہے کہ سچ بولا جائے جو واقعی ممکن ہو کر دکھائیں اور کھوکھلے وعدے کرنے سے گریز کریں۔ امید ہے عمران خان اور نواز شریف اس فارمولے پر غور کرینگ
This post appeared on the front page as a direct link to the original article with the above link
.
[T]he letter’s inconsistent capitalization, randomly emphasizing words like “TRADE,” “Great Honor,” “Tariff,” and “Non Tariff”, undermines the formality expected in high-level diplomatic correspondence.
Right now, Japan faces challenges unprecedented in recent years. Its alliance with the U.S., which has been the measuring stick for diplomacy, has been shaken.
Elon Musk’s recent push to launch a new nationwide party ... not only comes off as pretentious but also sets a fundamentally new trend in U.S. politics.
[T]he letter’s inconsistent capitalization, randomly emphasizing words like “TRADE,” “Great Honor,” “Tariff,” and “Non Tariff”, undermines the formality expected in high-level diplomatic correspondence.