امریکی وزیر خارجہ نے پاکستان کو بہت مایوس کیا
پاکستان اور امریکہ کے دفاعی مذاکرات جو نومبر 2011ءمیں سلالہ چیک پوسٹ پر امریکی فائر جیٹ کی بمباری اور24 پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد ختم ہوگئے تھے اب پاکستان اور امریکہ نے چھ ماہ میں سٹریٹجک مذاکرات بحال کرنے کا اعلان کیا ہے پاکستان کی تمام خوش فہمیاں اس وقت خاک میں مل گئیں جب امریکی وزیر خارجہ نے پاکستان کے تمام بڑے مطالبات ماننے سے انکار کردیا امریکی ڈرون حملے قبائلی علاقوں کے بے گناہ لوگوں کی ہلاکت کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔پاکستان کو امید تھی کہ امریکہ پاکستانی املاک کی تباہی اور جانوں کے ضیاع کو مدنظر رکھتے ہوئے اس سلسلے میں کوئی معقول رویہ اختیار کریگا۔امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے ڈرون حملے روکنے کا مطالبہ مسترد کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کے دشمنوں کیخلاف یہ حملے جاری رہیں گے۔ امریکی وزیر خارجہ کا یہ کہنا کہ پاکستان کے علاقوں میں امریکہ اپنے دفاع میں ڈرون حملے کر رہا ہے۔ امریکہ کو فی الوقت القاعدہ سے کوئی خطرہ ہے نہ طالبان جیسی تنظیموں سے بلکہ اگر دو امریکی شہروں پر القاعدہ کے حملوں کا بہانہ بنا کر امریکہ افغانستان میں بد ترین جارحیت کا ارتکاب نہ کرتا تو سات سمندر پار بیٹھے ہوئے اس ملک کو القاعدہ یا افغانستان کی طالبان حکومت سے کوئی خطرہ نہیں تھا اور اگر کوئی خطرہ تھا بھی تو سب سے زیادہ جدید اسلحے کے انبار اور جدید ٹیکنالوجی کا حامل ملک اس کا بخوبی مقابلہ کر سکتا تھا لیکن اس نے افغانستان میں آکر لاکھوں مسلمانوں کو شہید کیا اور اس ملک کے علاوہ پاکستان کو بھی ہمیشہ کیلئے دہشت گردی کی آگ میں دھکیل دیا۔ جان کیری کے دورہ اسلام آباد کی خبر بس یہ ہے کہ دونوںملکوں نے معطل شدہ دفاعی مذاکرات کو بحال کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ اصل مطالبہ تو صرف ایک ہے اور وہ ہے ڈرون حملوں کی بندش کا اس مطالبے کو امریکہ نے ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ جان کیری نے اپنے دورہ پاکستان میں اس تاثر کی بھی تردید کردی ہے کہ امریکہ افغانستان چھوڑ کر جارہا ہے اسے اکتوبر 2014ءتک اپنی فوجیں کم کرنی ہیں۔ البتہ اس کا فوجی قبضہ برقرار رہے گا اس لیے اس کا اصل مقصد اصل مسئلہ افغانوں کی مزاحمت ختم کرنا ہے۔ دفاعی مذاکرات کی بحالی کے ذریعے امریکہ پاکستان کے ذریعے مجاہدین آزادی کی جدوجہد کو ختم کرنا ہے دورہ اسلام آباد کے دوران جب صحافیوں نے جان کیری سے یہ پوچھا کہ کیا ڈرون حملے پاکستان کی خود مختاری کے منافی نہیں تو انہوں نے کہا اس حوالے سے اوبامہ انتظامیہ کی پالیسی واضح ہے۔ مساجد میں حملہ کرنیوالے پاکستان کی خود مختاری کو نشانہ بناتے ہیں، دہشت گرد امریکہ اور پاکستان کے مشترکہ دشمن ہیں۔ ایمن الظواہری پاکستان میں دہشتگردی کی کارروائیاں کر رہا ہے۔ دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ وطن عزیز میں ہر قسم کی دہشت گردی کرنیوالے بلاشبہ ملکی خودمختاری کے منافی عمل بدکا ارتکاب کر رہے ہیں۔ یہ عناصر مخفی ہیں اور چھپ کر حملے کرتے ہیں خودکش دھماکہ کرنیوالوں کا علم نہیں ہوتا اور ان عناصر کو دہشت گردوں کا نام دیا گیا ہے۔ امریکہ نہ تو دہشت گرد ہے اور نہ ہی کسی مخفی تنظیم کا نام امریکہ ہے بلکہ امریکہ ایک سپرپاور جمہوری اقدار اور انسانی حقوق کا دعویدار ملک ہے اور بحیثیت ریاست و حکومت ڈرون حملوں کا انتظام کرتا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ کا ڈرون حملوں اور مساجد پر حملوں کو یکساں نظر سے دیکھنا امریکہ کو ان عناصر کی صفوں میں شامل کرنے کے مترادف ہوگا۔ امریکہ کے پاس ڈرون حملوںکا قطعی کوئی جواز نہیں اور نہ ہی ڈرون حملوں کی اب ضرورت رہی کیونکہ تقریباً مطلوب افراد میں سے بیشتر مارے جاچکے ہیں باقی ماندہ افراد کیخلاف پاک فوج زمینی کارروائی میں مصروف ہے جب تک ان عناصر کو فضا سے نشانہ بنایاجاتا رہے گا القاعدہ اور تحریک طالبان کی قوت و طاقت ناقابل چیلنج متصور ہوتی رہے گی جو عناصر زمینی کارروائی کرتے ہیں ان کا مقابلہ بھی زمینی طاقت کے ذریعے ہی کیاجائے۔ امریکہ کو اب ڈرون حملوں کی مکمل بندش کا اعلان کردیناچاہئے اسکے بعد ہی اعتماد کی فضا ممکن ہے جس میں سٹرٹیجک مذاکرات ممکن ہوں گے۔
Leave a Reply
You must be logged in to post a comment.