افغان طالبان کی امریکہ سے براہ راست مذاکرات کی پیشکش
افغان طالبان نے افغانستان میں امن کے لئے تین مطالبات پیش کر دیئے ہیں۔ طالبان نے قطر میں اپنے دفتر کو سیاسی طور پر تسلیم کرنے امریکہ کے ساتھ براہ راست مذاکرات کرنے اور اپنے سینئر ارکان امریکہ کی بلیک لسٹ سے نکالنے کا مطالبہ کیا ہے ان کا کہنا ہے کہ شورش کے خاتمہ کے لئے یہ ابتدائی اقدامات ہیں قطر میں قائم طالبان دفتر کے ترجمان سجیل شاہین نے افغانستان میں امریکہ کی قیادت میں غیر ملکی اقوام افغانستان کے اقتدار اعلیٰ اور حکومت و سیاست کی آزادی کو نقصان پہنچا رہی ہیں افغانستان اور غیر ملکی نمائندوں سے ملنے کے لئے طالبان نے دوحہ میں اپنا ایک غیر سرکاری دفتر قائم کیا ہوا ہے یہ دفتر 2013 ء میں کھولا گیا تھا لیکن افغان حکومت کے اعتراض پر قطر کے مقام نے طالبان کو باضابطہ طور پر اپنا دفتر استعمال کرنے سے روک دیا تھا افغان صدر اشرف غنی بھی طالبان کے دفتر کو تسلیم کرنے سے انکار کر چکے ہیں۔ طالبان کی شرائط بظاہر بہت آسان اور قابل عمل دکھائی دیتی ہیں دوحہ کے دفتر کو تسلیم کرنا کوئی مسئلہ نہیں امن کے قیام کی ضمانت کی صورت میں اسے تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ طالبان کے امریکہ کے ساتھ مذاکرات بھی قابل عمل ہیں تاہم طالبان کے سینئر ارکان کو امریکہ بلیک لسٹ سے نکالنے کا معاملہ مذاکرات کی میز پر ہی طے ہو سکتا ہے وہاں طالبان کی طرف سے فہرست سامنے آنے کے بعد امریکی ردعمل واضح ہو سکتا ہے تاہم معاملات کا آگے بڑھنا اس لئے مشکل ہے کہ امریکی فوجیں افغانستان سے واپس نہیں آئیں گی جب تک وہاں امن یقینی نہ ہو جائے امریکہ اور افغانستان کے درمیان معاہدہ موجود ہے جس کے تحت امریکہ نے افغانستان کی سلامتی کو درپیش خطرات کی صورت میں اسکی مدد کرنی ہے وہ افغانستان حکومت کو طالبان کے رحم و کرم پر چھوڑ ک افغانستان سے آنے کا حامی نہیں ہے بہرحال طالبان کی امریکہ سے مذاکرات کی پیشکش خوش آئند ہے اس سے بہتری کے مزید راستے کھل سکتے ہیں۔
Leave a Reply
You must be logged in to post a comment.