Amid Chaos and Anger, Anything Is Possible

<--

صدر اوباما کے اس اعلان کے باوجود کہ 2014 ء کے بعد بھی امریکن فوجیں افغانستان میں موجود رہیں گی۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ امریکن افغانستان سے بھاگنے کے لئے تیزی سے پرتول رہے ہیں کیونکہ ہر آنے والا دن اُن کے لئے نیا عذاب لے کر طلوع ہوتا ہے۔ چونکہ امریکن جو بزعم خویش دنیا کی واحد بڑی قوت ” یونی لڑل پاور” ہونے کے بھی دعوے دار ہیں اس لئے وہ خود کو عقل کل بھی سمجھتے ہیں اور معاملات کو اپنے انداز سے نمٹانے پر یقین رکھتے ہیں۔

گزشتہ کچھ عرصے سے امریکن اور صدر کرزئی طالبان لیڈر شپ سے مذاکرات کررہے ہیں جن کی خبریں وقتاً فوقتاً سامنے آتی رہتی ہیں۔ امریکن کبھی اس کی تصدیق کرتے ہیں اور کبھی تردید لیکن ” نیویارک ٹائمز” کی ایک رپورٹ نے تو امریکنوں کو تماشا ہی بناکر رکھ دیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق ملّا منصور اختر کے نام سے جو طالبان لیڈر امریکنوں سے مذاکرات کرتا رہا اور امریکن اُس پر ڈالروں کی بارش بھی کرتے رہے (کیونکہ اُن کے نزدیک ہر شخص کی بہرحال ایک قیمت مقرر ہے) وہ ملّا منصور اختر نہیں بلکہ ایک فراڈیا یعنی ” بہروبیا” تھا جس کے عرصے سے امریکن ناز نخرے برداشت کرتے رہے اور وہ موقعہ ملتے ہی ڈالروں سمیت فرار ہوگیا ہے یہ ہیں وہ ” باخبر” امریکن جو ساری دنیا کو اپنی مرضی سے چلانے کا عزم رکھتے ہیں۔

طالبان کے حوالے سے ایک عرصے سے جو خبریں مقامی اور عالمی پریس میں شائع ہورہی ہیں۔ اُن کی صداقت ہمیشہ چیلنج ہوتی رہے گی۔ اس کی دو اہم وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ تو یہی ہے کہ دنیا کی کسی انٹیلی جنس ایجنسی کے پاس طالبان لیڈر شپ کی کوئی تصویر موجود یا محفوظ نہیں اور اب تک تصاویر کے معاملے میں اٹے سٹے سے کام چلایا جارہا ہے۔ اس لئے کوئی یہ نہیں بتاسکتا کہ کس لیڈر سے کس نے بات کی؟ دوسری اہم بات یہ ہے کہ طالبان کی اعلیٰ قیادت نے کبھی ان مذاکرات کے حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کیا۔ اُن کا صرف ایک ہی مطالبہ ہے کہ افغانستان پر امریکہ نے ناجائز قبضہ کیا ہوا ہے وہ اپنی فوجیں یہاں سے نکال لے باقی فیصلہ وہ آپس میں کرلیں گے۔

دنیا کا کوئی بھی شخص جس کا مذہب اسلام ہے اور وہ طالبان کی فلاسفی کو تھوڑا بہت سمجھتا ہے یہ جانتا ہے کہ طالبان کبھی امریکہ سے مذاکرات نہیں کریں گے۔ وہ امریکہ سے جنگ کریں گے خواہ اس کی کچھ بھی قیمت ادا کرنی پڑے۔ البتہ اگر پاکستانی حکومت رابطہ کار کے فرائض ادا کرے تو عین ممکن ہے کہ طالبان امریکہ کو کچھ رعایتیں دینے پر تیار ہوجائیں۔ آج بھی پاکستان اور شاید سعودی عرب ہی دو ایسے ممالک ہیں جو امریکہ کی جان اس عذاب سے چھڑاسکیں جو اُس نے خود اپنے گلے میں ڈالا ہے۔

اگر امریکہ خود کو بہت چالاک ہوشیار سمجھتا ہے تو اُسے یہ جان لینا چاہیے کہ یہاں اُسے جعلی ملّا منصور تو مل جائیں گے اصلی نہیں ملیں گے۔

امریکنوں کا بھی اب بھارتیوں کی طرح یہ مزاج بنتا جارہا ہے کہ اُن پر کوئی مصیبت آئے اُس کا ذمہ دار پاکستان ہے۔ اس خبر کا دلچسپ ترین پہلو یہ ہے کہ امریکنوں نے اس بوکھلاہٹ کو بھی آئی ایس آئی کے کھاتے میں ڈال دیا ہے اور اخبار لکھتا ہے کہ دراصل آئی ایس آئی نیہی اس جعلی ملّا منصور کو امریکہ سے ٹکرایا تھا اور بے چارے سیدھے سادھے، بھولے بھالے امریکنوں نے اُسے اصلی ملّا منصور سمجھ کر اُس سے مذاکرات شروع کردیئے امریکہ نے پہلی مرتبہ اپنی کوئی ناکامی آئی ایس آئی کے کھاتے میں نہیں ڈالی بلکہ ماضی میں بھی متعدد مرتبہ ایسا ہوچکا ہے اس لئے پاکستانیوں کے لئے تو یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ۔

امریکنوں کی جو درگت افغانستان میں بن رہی ہے اس کا اب ساری دنیا کو بخوبی علم ہوچکا ہے لیکن امریکی تاریخ سے آگاہ قارئین یہ بھی جانتے ہوں گے کہ امریکن بوکھلاہٹ اور غصے میں انتہائی خطرناک فیصلے بھی کرلیا کرتے ہیں۔ ”ہیروشیما اور ناگا ساکی”کی مثال کافی ہے۔ آج کل کوئٹہ میں سی آئی اے کو فری ہینڈ دینے کی خبریں گرم ہیں اور کوئٹہ پر ڈرون حملوں کے لئے امریکنوں کی ضد بھی بگڑے بچے کی طرح بڑھتی جارہی ہے اگر اس مرحلے پر پاکستان نے کوئی کمزوری دکھائی تو یہ اپنی سلامتی کے تابوت میں آخری کیل ٹھوکنے کے مترادف ہوگا۔

About this publication