10 Years after 9/11: What We Learned

<--

ـ 1 دن 1 گھنٹہ پہلے شائع کی گئی مصطفی کمال پاشا

9/11 کا واقعہ 2001 میں وقوع پذیر ہوا۔ آج ستمبر 2011 ہے۔گزرے دس سالوں کے دوران اس سانحہ کے بطن سے ہزار داستانوں نے جنم لیا ہے۔ خود امریکہ میں اس واقعہ کے متعلق متضاد آراءپائی جاتی ہیں۔ بہت سے لوگ اسے ایک طے شدہ سازشی منصوبہ سازی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں جسے امریکہ کی اسلام دشمن صہیونی لابی نے تحریر کیا اور امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے نیٹ ورک کے ذریعے اسے فلمایا گیا اور پھر دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر افغانستان میں ایک عالمی جنگ برپا کر دی گئی۔ عالمی جنگ اسطرح کہ 44 ناٹو ممالک کی مشترکہ افواج نے اس میں حصہ لیا اور 100سے زائد اقوام عالم کی رائے اس حملے میں شامل تھی۔ القاعدہ اور طالبان کے خاتمے کے نام پر عیسائی دنیا اکٹھی ہوئی اور مسلم دنیا کو عضو معطل بنا کر انہوں نے افغانستان کا ”تورا بورا“کر دیا۔ کابل پر قبضے اور طالبان حکومت کے خاتمے کے وقت امریکی صدر نے کہا تھا ”چوہے بلوں میں چھپ گئے ہیں“ حالانکہ طالبان نے اپنی صدیوں پرانی طے شدہ حکمت عملی کے تحت کابل خالی کیا تھا۔ انہوں نے امریکی اتحادی افواج اور شمالی اتحاد کے خونخواروں کو یہاں قابض ہونے دیا اس کے بعد افغانوں (طالبان) نے اپنی روایتی گوریلا جنگ شروع کی۔ حملہ آوروں کو چھوٹے چھوٹے زخم لگانے شروع کئے۔ اس میں سے خون رسنا شروع ہوا پھر یہ رستے زخم ناسور بن گئے جن کی تکلیف سے حملہ آور بلبلا رہے ہیں۔ طالبان کے لگائے ہوئے زخموں سے گوری افواج کو ٹیسیں اُٹھ رہی ہیں۔ حملہ آور اقوام بلبلا ر ہی ہیں۔ افغانستان میں ایساف کے کمانڈرامریکی جنرل بھی کہہ چکے ہیں کہ یہ جنگ جیتی نہیں جا سکتی ہے۔ امریکی صدر اوباما 2014 تک جنگی دستوں کے انخلا کے مکمل ہونے کا اعلان بھی کر چکے ہیں۔ انخلا کا آغازجولائی 2011 سے ہو بھی چکا ہے۔ طالبان جنگ جیت بھی چکے ہیں کیونکہ اس جنگ کا آغاز امریکی اتحادیوں نے کیا تھا وہی طالبان کو پتھر کے دور تک پہنچانے کا عزم لئے یہاں آئے تھے۔ انہوں نے ہی افغانوں کو ”مہذب“ بنانے کا ذمہ لیا تھا اب وہ خود ہی اعلان کر رہے ہیں کہ ”یہ جنگ جیتی نہیں جا سکتی“ وہ خود ہی اعلان کر رہے ہیں کہ طالبان سے مذاکرات ہو رہے ہیں۔ انہوں نے خود ہی یکطرفہ طور پر اپنے لڑاکا فوجی دستوں کے انخلاءاور 2014 تک افغانستان میں ملٹری آپریشن کے خاتمے کا اعلان کر دیا ہے جبکہ طالبان کا کہنا ہے کہ ”یہ جنگ امریکیوں کے یہاں آنے سے شروع ہوئی تھی۔ وہ یہاں سے نکل جائیں جنگ خود بخود ختم ہو جائے گی۔“کیا یہ سب کچھ طالبان کی جنگجوئیانہ صلاحیتوں کا اعتراف اور انکی مزاحمتی برتری کا کھلا ثبوت نہیں ہے۔ ویسے تو افغان گزشتہ سے پیوستہ صدی میں برطانیہ کےساتھ طویل جنگوں میں فتح حاصل کرکے اپنی ناقابل شکست صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے ہیں۔ گزشتہ صدی کے آخر میں اشتراکی حملہ آوروں کو ناکوں چنے چبوا کر اپنی تاریخ دہرا چکے ہیں اور اب رواں صدی کے آغاز پر دنیا کی واحد سپریم پاور کے ساتھ پنجہ آزمائی اور وہ بھی جرات رندانہ کے ساتھ کر کے اپنی لازوال تہذیبی و تمدن برتری کا ثبوت دے رہے ہیں۔ امریکی اتحادی افغانستان میں طالبان کے ہاتھوں مکمل طور پر پٹ چکے ہیں۔ امریکی خود بھی میدان جنگ میں اپنی ناکامی کا اظہار کر چکے ہیں۔

امریکی معیشت کا جنازہ نکل گیا ہے، ہر روز کوئی نہ کوئی بینک یا فنانشل انسٹی ٹیوشن دیوالیہ ہو رہا ہے۔ سینکڑوں ہزاروں نہیں لاکھوں امریکی بے روزگاری کا شکار ہیں۔ عالمی منڈی میں امریکی سکہ (ڈالر) اپنی قدر و منزلت کھو رہا ہے۔ دنیا کے معاشی انجن کا کردار ادا کرنے والا ’امریکہ‘ چین کو یقین دلا رہا ہے کہ اس کے واجب الادا قرضے محفوظ ہیں اور ادا کئے جائیں گے۔ افغانستان میں امریکی افواج کے کمانڈر انچیف پچھلے مہینے یہ بیان دے چکے ہیں کہ فوجیوں کی تنخواہیں لیٹ ہو سکتی ہیں‘ امریکہ شدید مالی مشکلات کا بھی شکار ہو چکا ہے۔

دس سال پہلے وہ جس عالمی نظام کا بزعم خود چیمپئن بنا ہوا تھا آج وہ نظام بربادی کی طرف جا رہا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام زندگی برباد ہوگئی ہے۔ امریکہ اپنی بقا کیلئے ترلے لے رہا ہے دوسری طرف عالمی افق پر نئی طاقتیں ابھر رہی ہیں۔ سفید انسان کے تہذیبی و تمدنی غلے کا دور خاتمے کی طرف جا رہا ہے۔ انسانیت ایک بار پھر انگڑائی لے رہی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام اپنی موت آپ مر رہا ہے۔ امریکی ہیبت کا سورج غروب ہو چکا۔ کمیونزم کا بت بھی افغان مسلمانوں نے پہاڑوںمیں پاش پاش کیا تھا۔ اب سرمایہ داری کا خانہ خراب بھی اسی قوم کے ہاتھوں ہو رہا ہے۔ بات صرف چند ماہ و سال کی ہے۔ جب امریکی اتحادی افواج یہاں سے بے نیل و نرام لوٹ جائیں گی پھر افغان باقی رہے گا اور کہسار باقی رہے گا، الحکم للہ و الملک للہ ۔!

About this publication