Are the Drone Attacks Not a Violation of Our Sovereignty?

<--

کیا ڈرون حملے ہماری خودمختاری پر حملہ نہیں؟

| ـ 18 اکتوبر ، 2011

پرویز مشرف کا عہدِ حکومت تھا، اقتدار کی مستی اور مدھرا کی سرمستی نے موصوف کی طبیعت میں دو آتشہ پن پیدا کر دیا تھا، یہ تو خدا کا شکر ہے کہ اُس نے وطن بیچ نہیں ڈالا، وگرنہ آثار تو یہی تھے، پھر وہ رات بھی آ ہی گئی جب اُس نے کولن پاول کو فون پر سب کچھ حوالے کر دیا۔ افغانستان میں لاکھوں مسلمانوں کا خون بہتا رہا، اور دھیرے دھیرے ”پرویزِ“ پاکستان نے امریکہ کی غلامی خود قبول کی بلکہ پورے ملک کو بھی اُس کی دسترس میں دے ڈالا، امریکہ قدم قدم آگے بڑھتا رہا، پاکستان فرنٹ لائن اتحادی بن گیا اور غیروں کے ساتھ مل کر پرویز مشرف نے اپنوں کا خون بہانے کا مکروہ عمل شروع کر دیا، جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کے حقیقی معنوں میں تابع فرمان تھے، انہیں دہشت گرد کا نام دے کر ایک نام نہاد دہشت گردی مخالف جنگ شروع کر دی، نیٹو فورسز نے افغانستان میں چھاﺅنی ڈالی، پاکستان کے حکمران نے لاجسٹک سپورٹ کا معاہدہ کیا۔ لال مسجد کا خونیں سانحہ بھی گزر گیا، اور بالآخر آمر بھی گزر گیا مگر امریکہ کی جانب، پاکستانی بیچے ڈالرز جیب میں ڈالے، اور امریکہ سے بہت کچھ وصول کر کے بیرون ملک لے گیا۔ پھر اُس سے خلاصی ملی، اگر اُس وقت ہمارے کچھ سیاستدان اُس کے شانہ بشانہ کھڑے نہ ہوتے تو شاید نوبت یہاں تک نہ پہنچتی، مگر شاید غداروں کے ملکوں میں ایسا ہی ہوتا ہے، بینظیر بھٹو نے اپنے باپ کے لہجے میں بات کی اُسے گولی مار دی گئی، پھر ایک ظلمت چھا گئی، لوگ بی بی کی تعزیت کے لئے جاتے یا اپنے ملک کی، آصف علی زرداری نے تعزیت کے دوران ہی پارٹی کو کھڑا کیا، انتخابات کی تیاری کی اور ملک کی بڑی سیاسی پارٹی مسلم لیگ نون کو شکست دیدی۔ لوگ سمجھے کہ اب روٹی کپڑے مکان کا عہد آ گیا مگر ایسا نہ ہوا، اور جان مال عزت پر بن گئی، مشرف کی وراثت کو توسیع دی گئی اور امریکہ کو مکمل یقین دہانی کرا دی گئی کہ اگر ایک غلام چلا گیا، اس کی ٹیم بھی چلی گئی، تو نئی کھیپ تیار ہے، کورنش بجا لاتی ہے، اب یہ تو آصف زرداری جانتے ہوں گے کہ اُن کے کندھوں پر کتنی مجبوریاں مزید لاد دی گئیں اور کتنی اُنہیں ورثے میں ملیں، مگر ان تمام آلائشوں سے چاہے وہ معاہدے ہی کیوں نہ تھے دامن جھٹکا جا سکتا تھا، اور اپنی آزاد خودمختار مفید ملک و قوم خارجہ و داخلہ پالیسی وضع کی جا سکتی تھی، اب جبکہ ہمارے ساتھ فرنٹ لائن اتحادی ہونے کے ناطے بہت زیادہ ڈومور ہو چکا تو جنرل کیانی نے بھی جھرجھری لی، اور اک گونہ دلیری پر مبنی بیان دینے کے ساتھ، شمالی سرحدوں پر افغان فوج کے حملوں کا منہ توڑ جواب دیا، اور ساتھ یہ بھی کہہ ڈالا کہ ہم اپنی داخلی خودمختاری کو داﺅ پر نہیں لگا سکتے۔ لیکن شاید وہ دانستہ نادانستہ بھول گئے کہ داخلی خودمختاری تو ڈرون حملوں کے ذریعے مسلسل پامال کی جا رہی ہے، اور دہشت گردوں کی تلاش کا بہانہ بنا کر ہزاروں بے گناہ پاکستان کے قبائلی شہید کئے جا چکے ہیں اور جس روز اے پی سی ختم ہوئی اس کے فوراً بعد ڈرون حملہ کر کے ایک پیغام دیا گیا۔ لیکن ہزار اختلاف کے باوجود یہ اے پی سی امریکہ پر اپنے اثرات مرتب کر گئی، یہ کریڈٹ صدر اور وزیراعظم کو جاتا ہے کہ انہوں نے خطرے کی گھڑی میں ایک ہو کر دکھا دیا، اور مخالف جماعتوں نے بھی اے پی سی کو کامیاب بنانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ اب یہ سوال پیدا ہونا فطری ہے کہ اگر جنرل کیانی زمینی حملوں کو منہ توڑ جواب دے سکتے ہیں تو ڈرون کیوں نہیں گرا سکتے، وگرنہ اُن کا داخلی خودمختاری کا دعویٰ ادھورا رہ جائے گا۔ اے پی سی اور ہماری فوج کا کروٹ بدلنا ایک نیک شگون ہے، لیکن کرپشن اور بیڈ گورننس کا کیا کیا جائے جس نے ایک منتخب جمہوری حکومت کو رسوا کر دیا ہے، ممکن ہے مرد حُر اس سلسلے میں کوئی ایسا بڑا حیران کن قدم اُٹھا لیں جس کی لوگ اُن سے توقع نہ کرتے ہوں، ہم صدر گرامی قدر کو اس موقع پر اقبال کا یہ پیغام ضرور پہنچائیں گے

یہ مال و دولت دنیا یہ رشتہ و پیوند بتانِ وہم و گماں لا الٰہ الا اللہ

اگر وہ اپنے سمیت سب کی دولت واپس لے آئیں، اور کالاباغ ڈیم بنانے کا اعلان کر دیں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ آئندہ انتخابات نہ جیت سکیں مگر شاید وہ ایسا نہیں کرینگے، اب وہ زمانہ آ چکا ہے کہ ووٹر پہلے جیسا بے شعور نہیں بلکہ میڈیا نے اُس کی معلومات میں کافی اضافہ کر دیا ہے، اور ہر شخص نے اپنے ذہن میں یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ ووٹ کس کو دینا ہے، امریکہ سے عام پاکستانی محبت نہیں کرتا، اور یہ چاہتا ہے، کہ جو بھی حکومت آئندہ آئے وہ امریکی غلامی سے آزاد ہو۔ امریکہ یہ جانتا ہے کہ پاکستان ایک ایٹمی ملک ہے اسے براہ راست حملے سے تباہ نہیں کیا جا سکتا، اور اس کے عوام امریکہ سے اِٹ کتے کا ویر رکھتے ہیں، اس لئے ہمیں سبق سکھانے اور برباد کرنے کے لئے اُس نے سائنسی جینیاتی حملوں کا پروگرام بنا لیا ہے، ایسی ایسی نئی ویب سائٹس سامنے آ رہی ہیں جو ثبوتوں کے ساتھ یہ حقائق منظرِعام پر لا رہی ہیں، کہ پاکستان ڈرون حملوں کا تو عادی ہو چکا ہے، اس لئے انہیں تیز کر کے وائرل حملے بھی ترتیب دئیے جائیں، جن سے امریکہ متنفر پاکستانی عوام سے ہسپتال بھر جائیں اور ان وائرل حملوں کا پاکستان کوئی سدباب بھی نہ ڈھونڈ سکے، اس امکان کے پیشِ نظر پاکستان کے سائنسدانوں کو بھی سامنے آنا چاہئے، حکومت کو قائل کر کے، جواب آں غزل تیار کیا جائے، پوری قوم صدر اور کیانی سے توقع رکھتی ہے کہ وہ کب ڈرون گرانے کے احکامات جاری کرتے ہیں، پاکستان میں ٹیلنٹ اور وسائل کی کوئی کمی نہیں مگر یہاں علم کی قدر افزائی نہ ہونے کے باعث پوری قوم عذاب سہہ رہی ہے۔ کیا کسی نے ڈینگی کا مخصوص شکل و صورت کا مچھر پہلے کبھی دیکھا تھا، اگر یہی سچ ہے تو بعید نہیں کہ ایک مخصوص وائرس کے حامل مچھر کی افزائش کی گئی اور امریکہ جینیاتی تبدیلیاں پیدا کرنے میں بہت آگے جا چکا ہے، اب ہماری سویلین و عسکری قیادت کو نئے حالات کے تقاضے پورا کرنے ہوں گے، اس لئے ہماری گزارش ہے، خودمختاری میں زمینی حملوں کو روکنے کے ساتھ ڈرون گرانے کا جراتمندانہ اقدام بھی شامل کیا جائے۔

About this publication