ہلیری کے جارحانہ رویہ سے پاک امریکہ کشیدگی میں اضافہ
| ـ 31 اکتوبر ، 2011
ریاض احمد چودھری
امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے پاکستان کے دورے میں انتہائی سخت گیر م¶قف پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر پاکستان امریکہ کے مطالبات تسلیم نہیں کرتا تو پھر امریکہ خود حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کرے گا اور امریکہ کی اتحادی افواج اس آپریشن کو کامیاب بنانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اس کےلئے پاکستان کو 15 دنوں کی ڈیڈ لائن دی ہے۔
سفارت کاری کچھ آداب کے تابع ہوتی ہے اور اس کی اپنی ایک زبان ہوتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس حوالے سے پاکستانی زعمائے حکومت و ریاست نے بڑی احتیاط سے کام لیا اور ہلیری کے ساتھ بہت معقول زبان میں بات کی لیکن امریکی وزیر خارجہ کا انداز لب و لہجہ اور الفاظ کا چناﺅ ٹھیک نہ تھا۔ ہلیری کے مطابق ان کی باتوں کو وارننگ سمجھا جائے اور چند دنوں کے اندر اندر حقانی گروپ کے خلاف کارروائی کی جائے نہ صرف آداب سفارتکاری کے خلاف طرز عمل ہے بلکہ اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ پاکستان ردعمل کا شکار ہو جائے گا اور پاکستان امریکہ کے درمیان جو بچے کچھے تعلقات ہیں وہ بھی اس ردعمل کی نذر ہو جائیں گے۔
اصل بات یہ ہے کہ امریکہ افغانستان میں جنگ ہار رہا ہے اور اپنی شکست کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ واشنگٹن جس ڈگر پر چل پڑا ہے اس سے پیچھے نہیں ہٹے گا کیونکہ اس کے دامن میں ناکامیوں کے سوا کچھ نہیں ہے۔ سوویت یونین کے ساتھ جنگ میں امریکہ کو ملنے والی کامیابی ہماری مرہون منت تھی اور اس وقت امریکی میڈیا اسامہ بن لادن اور افغان جنگجو قیادت کو ہیرو کے طور پر پیش کیا کرتا تھا۔ لیکن چونکہ امریکیوں کے ہاں محسن کشی کی روایت بہت پرانی ہے اس لئے امریکی اپنے دامن میں ساری کامیابی سمیٹ کر ہمیں اور افغانستان کو اکیلا چھوڑ کر رفو چکر ہوگئے تھے۔ امریکہ کو تو واحد سپر پاور ہونے کا اعزاز مل گیا اور اس نے دنیا پر تھانیداری شروع کر دی لیکن ہمیں کیا ملا؟ لاکھوں افغان مہاجرین کا بوجھ کلاشنکوف کلچر منشیات کی یلغار اور عدم استحکام کا شکار ایک پڑوسی ملک جو امریکہ کے نکلتے ہی خانہ جنگی میں مبتلا ہوگیا تھا۔ اس خانہ جنگی کو رکوانے اور افغانستان میں ایک وسیع البنیاد حکومت بنانے میں بھی امریکہ اہم کردار ادا کر سکتا تھا لیکن اس نے معاملات کو یونہی چلنے دیا اور افغان عوام کو امن نصیب نہ ہو سکا۔ یہ امن اس وقت قائم ہوا جب طالبان کے نام ایک گروہ قیام امن کے لئے اٹھا اور اس نے پاکستان کی مدد سے افغانستان میں حکومت قائم کرکے افغانستان کے 80 فیصد سے زائد علاقے میں امن قائم کر دیا۔ پوست کی فصل پر پابندی لگا دی اور کھڑی فصلوں کو جلا دیا فوری اور سستے انصاف کو ہر خاص و عام کے لئے عام کر دیا اور جب چند جرائم پیشہ لوگوں کو سخت سزائیں ملیں تو امن و امان کے حالات بہت بہتر ہوگئے اتنے بہتر کہ رات کے ایک بجے اگر کوئی افغان عورت سونے کے زیورات سے لدی پھندی کسی عزیز کے گھر جانے کے لئے اکیلی بھی گھر سے نکلتی تو کسی کی مجال نہ تھی کہ اس کی عزت اور مال کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھ سکتا۔ اس امن کو تباہ کرنے کا واحد ذمہ دار امریکہ تھا جس نے بغیر ٹھوس ثبوتوں کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کا سارا ملبہ اسامہ بن لادن اور طالبان پر ڈال دیا اور عجلت میں ہوائی حملے کرکے نہ صرف طالبان حکومت کا خاتمہ کر دیا بلکہ افغانستان کو امن سے برسوں دور کر دیا۔ ظلم کی ایسی ایسی داستانیں رقم کیں کہ جنہیں سن کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔
حقانی نیٹ ورک محض ایک آڑ ہے اصل میں امریکی حکومت اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈال کر اپنے عوام پر یہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ پاکستان کے عدم تعاون کی وجہ سے وہ دہشت گردی کے خلاف افغانستان میں جنگ نہ جیت سکی حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس نام نہاد جنگ کی جو قیمت پاکستانی ریاست اور پاکستانی عوام نے ادا کی ہے اس کا عشر عشیر بھی امریکیوں اور نیٹو کے حصے میں نہیں آیا۔ امریکہ کے اندر بھی امن ہے اور نیٹو ممالک بھی امن کے ساتھ جی رہے ہیں جبکہ ہم پاکستان اور افغان عوام اب بھی پائیدار امن سے کوسوں دور ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ جو لہجہ اسلام آباد میں امریکی وزیر خارجہ نے اختیار کیا یہ شکست خوردگی کی علامت ہے اور کھسیانی بل کھمبا نوچے کے مترادف ہے۔
Leave a Reply
You must be logged in to post a comment.