Obama, the West and the World Community Must Acknowledge that a Terrorist Has No Religion

<--

اوباما‘ مغرب اور عالمی برادری طے کرلے کہ دہشتگرد کا کوئی مذہب نہیں

صدر بارک اوباما ایک انٹرویو کے دوران دہشت گردی کیخلاف جنگ کو اسلام کیخلاف یا کسی قسم کی مذہبی جنگ قرار دینے سے انکار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کے مختلف مقامات پر مسلم کمیونٹیز میں سے ایک عنصر نے مذہب کی غلط تاویل پیش کی ہے، تشدد کا عنصر شامل کیا اور اسلام کی غلط تشریح کی۔

اسلام امن و آشتی کا دین ہے۔ اگرچہ چند گمراہ عناصر نے اپنے نظریات کو اسلام کا نام دینے کی کوشش کی ہے۔ ان نظریات کو اہل اسلام نے مسترد کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج پوری دنیا میں یہ ناپسندیدہ عناصر راندہ درگاہ ہیں۔ انہی عناصر کا اوباما نے ذکر کیا ہے صدر اوباما کا تجزیہ بالکل درست ہے۔ اہل اسلام کو مغرب سے شکوہ ہے کہ اس نے دہشتگردی کو اسلام کے ساتھ جوڑا‘ صدر اوباما کے پیشرو صدر بش نے افغانستان پر یلغار کا قصد کیا تو اسے کروسیڈو قرار دے دیا‘ اس سے مسلمانوں کی دل آزاری تو ہونا ہی تھی۔ دہشتگردی میں غیر مسلم بھی ملوث پائے گئے ہیں۔ ان کی دہشتگردی کو ان کے مذہب کے ساتھ نہیں جوڑ اجاتا۔ مغربی میڈیا کا مسلمانوں سے امتیاز شک و شبہ سے بالا ہے۔ ہندوؤں اور یہودیوں کی اہل اسلام سے مخاصمت ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ مسیحی برادری بھی جب میڈیا کے زیر اثر اہل اسلام کو دہشتگردی کا مرتکب سمجھے گی تو تہذیبوں کے مابین نفرتوں کی دیواریں کھڑی ہوں گی اور ہر دہشتگردی کے اقدام کو مسلمانوں کے کھاتے میں ڈالنے سے یہ دیواریں بلند ہوتی چلی جائیں گی جس سے عالمی امن بھی شدید نقصان سے دوچار ہو گا۔ اوبا‘ما مغرب اور مغربی میڈیا کو اپنے کردار سے نفرتوں کی ایسی دیواریں مسمار کرنا ہوں گی اوباما ‘مغرب اور عالمی برادری یہ اصول طے کرلے کہ دہشتگرد کا کوئی مذہب نہیں۔ دہشتگرد اول و آخر دہشتگرد ہے جس کا خاتمہ سب کو مل کر کرنا ہے۔

About this publication