America’s Fight With Pakistan

<--

امریکہ کا پاکستان سے ڈو مور کا مطالبہ

| ـ 6 اکتوبر ، 2011

امریکی صدر کی جانب سے پاکستان سے ڈو مور کے مطالبہ پر زور دینے سے معاملے میں سنجیدگی ظاہر ہوتی ہے جبکہ پاکستان کی طرف سے ہنوز اس سلسلے میں کوئی واضح ظاہری اقدامات نظر نہیں آتے ا ور نہ ہی اس قسم کی سخت تردید اور انکار کی کوئی صورت دیکھی جا سکتی ہے بلکہ آرمی چیف نے برملا کہا کہ امریکہ کسی بھول میں نہ رہے ہم ملکی دفاع کی لئے تیار ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ دونوں ممالک کی جانب سے معاملات کے حوالے سے اس قسم کے بیانات دباﺅ بڑھانے اور دباﺅ میں نہ آنے پر مبنی ہیں وگرنہ اس مسئلے پر پاکستان اور امریکہ کا اس طرح کا ایک دوسرے کے آمنے سامنے آنا اور گرم گفتاری سمجھ سے بالاتر امر ہے۔ دونوں ممالک کو اپنی اپنی مشکلات کا احساس و ادراک ہے کہ تصادم کس قدر مشکل امر ہے۔ امریکہ سے زیادہ کس ملک کو اس امر کا تجربہ ہو گا کہ تصادم شروع ہونے کے بعد کے پیش آنے والے حالات سے نمٹنا کس قدر مشکل اور تباہ کن ثابت ہوتا ہے۔ کل جماعتی کانفرنس سے عوام کی توقع تھی یہ کانفرنس امریکہ کی دھمکیوں کے خلاف کوئی قرار داد پیش کرے گی قومی کانفرنس میں جو طرز عمل اپنایا گیا اسے باوقار طریقہ قرار نہیں دیا جا سکتا ممکن ہے کہ اندرون خانہ اور بیرون خانہ کی تشریحات و تصریحات مختلف ہوں وہ اپنی جگہ البتہ کل جماعتی قرارداد میں اتنی تو وضاحت اور صراحت کی ضرورت تھی کہ جارح قوتوں سے غلط فہمی دور کرنے اور معاملات کا دوطرفہ مفادات کی خاطر بہتر انداز میں حل نکا لنے پر زور دیا جاتا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ فو جی قیادت نے کور کمانڈرز کانفرنس میں جو ٹھوس طرز عمل اپنایا تھا اور فوجی قیادت کی جانب سے وقتاً فوقتاً امریکی بیانات کے بارے میں جو لب و لہجہ اختیار کیا گیا سیاسی قیادت کی جانب سے اس کا اظہار سامنے نہیں آیا۔ کانفرنس کے اعلامیہ سے ایسا لگتا ہے کہ حکومت اور سیاسی عناصر ضروت سے زیادہ مصلحت کا شکار ہیں۔ جسے کمزوری پر محمول کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں پارلیمنٹ اس سے قبل بھی قرار دادیں منظور کر چکی ہے۔ امریکہ پاکستان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر سکتا۔ صدر امریکہ کے ساتھ امریکی سینٹرل کمانڈ کے ایک افسر نے یقین دہانی کرا دی ہے کہ امریکی فوج پاکستان کی سرزمین پر داخل نہیں ہو گی۔ رخصت ہونے والے امریکی فوج کے سربراہ مولن نے بھی اپنے جانشین کی نصیحت کی ہے کہ پاکستان کی اہمیت کو یاد رکھنا۔ اگر اس موقع کو بھی ہمارے حکمرانوں نے گنوا دیا تو گیا وقت ہاتھ نہیں آئے گا۔ امریکی فوج کے رخصت ہونیوالے سربر اہ مولن کی بات تو درست ہے لیکن امریکہ ہمارا ازلی دشمن ہے۔ پاکستان کو اس کی بات پر اعتماد نہیں کرنا چاہئے ہم سمجھتے ہیں کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان اختلافات کی نوعیت جو بھی ہو معا ملات کی افہام و تفہیم سے طے کرنا اور کشیدگی سے گریز دونوں کے حق میں بہتر ہو گا۔ پاکستان کو اس سلسلے میں جہاں امریکہ کے ساتھ سفارتی سطح پر معاملات پر رابطہ تیز کرنے کی ضرورت ہے وہاں پاکستان کو عالمی سطح پر ایک سطح پر ایک سفارتی مہم شروع کر کے امریکی الزام کی وضاحت اور تردید کرنی چاہئے اور دنیا پر زور دینا چاہئے کہ امریکہ پاکستان سے افغانستان ا ور عراق جیسا سلوک کرنے کا نہ سوچے۔ دوسری طرف پاکستان کیلئے کچھ ایسے اقدامات کر نے کی بہرحال ضرورت ہے جن سے یہ تاثر ملے کے پاکستان کسی کی پشت پناہی کی بجائے خطے میں قیام امن کو ترجیح دیتا ہے اور اس پر جو الزام لگ رہا ہے۔ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کی لئے غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے کی لئے یقیناً ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہو گی۔ اب یہ ہماری سفارتی اور کسی حد تک فوجی قیادت کا کمال ہو گا کہ وہ ایسا کیا طریقہ کار اختیار کرتی ہے اور کیا حکمت عملی اپنا ئی جاتی ہے کہ پاکستان اس صورتحال سے نکلے اور کسی آزمائش کا شکار نہ ہونا پڑے۔ ہمارا امریکہ کو مشورہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو اور پاکستان کو کسی نئی مشکل صورت حال سے دوچار کرنے کی بجائے اہداف کا درست تعین کر کے ان کے حصول کی راہ اپنائے۔

About this publication