Saudi Arabia and Iran Also Express Reservations against Trump’s Policies

 

 

<--

ٹرمپ کی پالیسیوں کیخلاف سعودی عرب اور ایران کے بھی تحفظات

سعودی عرب نے امریکہ کو خبردار کیا ہے کہ اگر ٹرمپ کی پالیسیوں سے سعودی معیشت کو نقصان پہنچا تو امریکہ بھی محفوظ نہیں رہے گا۔ برطانوی میڈیا کے مطابق سعودی وزیر برائے توانائی خالد الصالح نے باور کرایا ہے کہ تیل کی خریداری کا سب سے زیادہ فائدہ واشنگٹن نے اٹھایا ہے۔ اگر ٹرمپ نے اپنے انتخابی نعروں کے مطابق سعودی عرب کے تیل کی درآمد پر پابندی لگائی تو اس کا امریکی معیشت پر بھی منفی اثر پڑیگا اس لئے وہ ایسا کرنے سے باز رہیں۔ دوسری جانب ایران کے سپریم لیڈر خامنہ ای نے بھی صدر امریکہ کیلئے ٹرمپ کے انتخاب پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ انکے صدر منتخب ہونے کے بعد کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ہم ہر طرح کے حالات کا سامنا کرنے کو تیار ہیں۔ انکے بقول امریکہ کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے تہران کو زک پہنچانے کا کوئی موقع نہیں جانے دیا۔

ڈونلڈ ٹرمپ کیلئے یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ 8 نومبر کو انکے صدر منتخب ہوتے ہی مغربی یورپی دنیا اور خود ان کے ملک امریکہ میں ان کیخلاف احتجاج اور پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا جو آج انکے انتخاب کے دس روز بعد بھی جاری ہیں اور امریکہ کے مختلف طبقات کی جانب سے تو ان پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے انہیں صدر کے طور پر تسلیم کرنے سے بھی انکار کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے آئندہ سال جنوری میں صدر امریکہ کے منصب کا حلف اٹھانا ہے لیکن جس جارحانہ انداز میں دنیا بھر میں انکی ذات‘ کردار اور پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اگر انہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران جاری کی گئی آٹھ نکاتی ترجیحاتی پالیسی سے رجوع نہ کیا تو ان کیخلاف جاری مظاہرے شدت اختیار کر کے سوویت یونین ہی کی طرح امریکہ کی تقسیم کی بھی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔ انہوں نے جس طرح مسلم دنیا کا ناطہ دہشتگردی کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی اور امریکہ میں مقیم 30 لاکھ کے قریب بند کرنے کتارکین وطن کو‘ جن میں غالب اکثریت پاکستان اور دوسرے مسلم ممالک کے باشندوں کی ہے‘ امریکہ سے نکالنے کا اعلان کیا‘ سعودی عرب سے تیل کی درآمد ا عندیہ دیا اور امریکی معاشرے کی نسل پرست معاشرے کے طور پر عکاسی کی۔ اسکی بنیاد پر انتخابی مہم کے دوران بھی ان کیخلاف منافرت کی فضا پیدا ہوئی اور اب انکے انتخاب کے بعد انکے بارے میں دنیا بھر سے تحفظات کا اظہار سامنے آ رہا ہے۔ یقیناً وہ اپنے دور صدارت میں اپنی پارٹی ری پبلکن کی گائیڈ لائن کی ہی پیروی کرینگے تاہم انکے انتخابی نعرے انکی پارٹی پالیسیوں سے قطعی متصادم ہیں اس لئے اب ٹرمپ کے انتخابی نعروں کی انکی پارٹی کو وضاحت کرنا چاہئے۔ اگر یہ نعرے ری پبلکنز کی پالیسیوں کا حصہ ہیں تو پھر ٹرمپ کے دور اقتدار میں ایرانی روحانی لیڈر کے بقول دنیا میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اگر سعودی عرب نے خود ہی امریکہ کو تیل کی برآمد بند کر دی اور امریکی بنکوں میں موجود اپنی اربوں کھربوں کی رقوم نکلوا لیں تو سعودی معیشت محض کچرے کا ڈھیر بن کر رہ جائیگی۔ اس صورتحال میںحکمران ری پبلکن نے ’’امریکہ میک گریٹ اگین‘‘ کے ماٹو کی پیروی کرنی ہے تو انہیں ٹرمپ کی مسلم دنیا کے خلاف انتہا پسندانہ پالیسیوں کو ترک کرانا ہو گا بصورت دیگر آنے والے حالات امریکی سلامتی و استحکام کے لئے کوئی اچھی خبر دیتے نظر نہیں آ رہے۔

About this publication